حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
صورت حضرت مولانا تجویز فرمائیں وہ ہرصورت سے انشاء اللہ پسندیدہ ہوگی۔‘‘ عبدالرحیم۔ (تاریخ مظاہر اول :۱۲۰) حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ اس درخواست پر یہ نوٹ چڑھاتے ہیں: ’’حضرت مولانا صدرمدرس نے جو صورت تجویز فرمائی ظاہرا ہر پہلو سے قرینۂ مصلحت ہے، اس لئے اس کے منظورکرلینے کی رائے دیتاہوں۔‘‘ اشرف علی ۴شوال ۱۳۲۶ھ ۔ (تاریخ مظاہر اول۱۲۰) حضرت مولانا محمود حسن صاحب اپنی رائے اس طرح ظاہر فرماتے ہیں: ’’صورت مجوزہ جناب مولانا کے لئے موجب راحت اور مدرسہ کے لئے نہایت مفید ہے اس لئے تامل نہ کرنا چاہئے۔‘‘ محمود حسن ۱۲ شوال ۱۳۲۶ھ۔ (تاریخ مظاہر اول :۱۲۰) سرپرست حضرات علماء کے اتفاق رائے سے آپ کی یہ درخواست منظور کرلی گئی اور مولانا محمد یحیٰ صاحب کاندھلوی ۱۹ رجب ۱۳۲۷ھ کو گنگوہ سے آگئے اور اس سال کے جو اسباق پڑھانے سے رہ گئے تھے، وہ سالانہ امتحان سے پہلے ہی مکمل کرادئیے۔دیوبند کا جلسۂ دستار بندی اور آپ کی شرکت : ۶،۷،۸ربیع الثانی ۱۳۲۸ھ مطابق ۱۶،۱۷،۱۸اپریل ۱۹۱۰ء کو دارالعلوم دیوبند کا جلسۂ دستار بندی ہوا، سینکڑوں طلباء کی دستار بندی ہوئی، جن میں سب سے پہلے مولانا انور شاہ صاحب کشمیری کے دستار بندی جو ۱۳۱۴ھ میں دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہوئے تھے اور حضرت مولانا کے شاگرد تھے، شاہ صاحب کی دستار بندی کے بعد مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی کو تین سبز دستاریں ملیں، جن میں ایک مدرسہ کی طرف سے، دوسری حضرت گنگوہی کے فرزند حکیم مسعوداحمدصاحب کی طرف سے ، تیسری مولانا حکیم احمد صاحب رامپوری کی طرف سے۔ یہ جلسہ اپنی نوعیت کا منفرد جلسہ تھا، اس وقت کے تمام اخبارات نے اس جلسہ کی غیر معمولی کامیابی پر بڑے اچھے مقالات اور تبصرے لکھے تھے۔ اس جلسہ میں حضرت مولانا محمود حسن صاحب بڑے متفکر رہے، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ، اور حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائپوری، حضرت مولانا محمود حسن صاحب کی اس فکر میں برابر کے شریک اور جلسہ کی کامیابی کے سلسلہ میں ہر طرح ان کے معاون اور مددگار رہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جلسہ کے اختتام تک یہ تینوں بزرگ چھتے والی مسجد کے اندرونی حصہ میں برابر مراقب رہے اور ان کے مراقب ہونے کی سوائے مولانا محمود حسن صاحب