حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۳۱۶ھمیں مذکورہ بالا کتابوں کے ساتھ بیضاوی سورئہ بقرہ ،مسلم شریف تمام (بجائے ۳۰ صفحات) ہدایہ ثانی ،تاریخ یمینی، نورالانوار۱۷۰ صفحات۔ ۱۳۱۷ھ میں مذکورہ بالا کتابوں کے ساتھ مشکوٰۃ شریف اول اور مقامات حریری دوسو پچیس صفحات۔ مندرجہ بالا سطور میں آپ کے تشریف لانے کے سال ۱۳۱۴ھ سے ۱۳۱۷ھ تک چار سالہ جائزہ لیاگیا ہے جس سے اندازہ ہوگا کہ آپ کتنی زیادہ کتابیں پڑھانے کے لئے دی گئی تھیں اور باوجود اس کے کہ آپ نے مختلف مدارس میں اب تک ان کتابوں کو پڑھایا تھا اور آپ کو ان کے درس وتدریس کا ملکہ حاصل تھا اس کے باوجود آپ مطالعہ فرماتے اور طلباء کو پورے اہتمام سے پڑھاتے اور مطمئن کرتے اور وقت مقررہ تک ان ساری کتابوں کو ختم بھی فرمادیا کرتے تھے۔ ذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔آپ کے دورمیں صدر مدرسی کے جلسے اور حضرت مولانا تھانوی سے تعلق : آپ ۱۳۱۴ھ میں مستقل طور پر مظاہر علوم تشریف لائے اور اسی سال حضرت گنگوہی اس مدرسہ کے سرپرست ہوئے اور ان دونوں بزرگوں کی تشریف بری سے اور توجہ اور دلچسپی سے مدرسہ میں ہرطرح کی ترقی ہوئی، ۱۳۱۷ھ کی روداد میں حضرت گنگوہی کا ذکر اس طرح ملتاہے: ’’اور یہ سب بقیۃ السلف ،حجۃ الخلف، نعمان زمان، جنید دوراں، حضرت مخدوم العالم مولانا مولوی رشید احمد صاحب محدث گنگوہی سلمہٗ اللہ تعالیٰ کے انفاس طیبہ کی برکات کا صدقہ ہے۔‘‘ جس روز سے یہ مدرسہ حضور دامت برکاتہم کی سرپرستی میں داخل ہوا ہے اس وقت سے مدرسہ کے ہر ایک جز میں نمایاں برکت اور ترقی ہے اور کیوں کر نہ ہو ایسے ہی مقربین اولیاء اللہ تعالیٰ کی ذوات مقدسہ کے ساتھ ارض وسمٰوات کی بقا کا سلسلہ وابستہ ہے۔‘‘ (تاریخ مظاہر اول ۷۸) مدرسہ کی ترقیوں میں ان جلسوں کا بھی بڑا دخل ہے جو حضرت مولانا کی صدر مدرسی کے بعد بڑے اہتمام سے کئے جانے لگے جن میں مشاہیر علماء کرام خصوصا شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب شرکت فرماتے اور تقریر فرمایا کرتے تھے، ۱۳۱۷ھ کے جلسے میں جو کثیر مجمع شریک ہوا اور حضرت شیخ الہند کی موثر اور جامع تقریر ہوئی وہ مدتوں لوگوں کو یاد رہی، ۱۳۱۸ھ کے جلسے سے ہر جلسہ میں ان علماء کے علاوہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی طویل، موثر اور دلپذیر تقریر ہوتی تھی۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے آپ سے قدیمی تعلق اور روابط تھے، اور ایک زمانہ سے ملاقات ہوتی رہتی تھی لیکن گہرا تعلق اس وقت ہوا جب آپ مظاہر علوم کے صدر مدرس ہوئے اور حضرت تھانوی کانپور سے منتقل ہوکر ۱۳۱۵ھ میں اپنے وطن تھانہ بھون تشریف لے گئے اور پھر مظاہر علوم کے جلسوں میں برابر شرکت فرمائی، آپ کے وعظ بڑے ذوق وشوق سے سنے جاتے اور مدرسہ اور سامعین کو بڑا فائدہ پہنچتا آپ کی سب سے پہلی تقریر ۱۳۱۸ھ کے جلسے میں ہوئی۔