حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تحریر فرماتے ہیں: قطب الارشاد گنگوہی کی خدمت میں ایک صدر مدرس کے لئے ضرورت کا اظہار کیا گیا، صدر مدرسی کا عہدہ نہ اس قابل کہ ہر شخص کو اس پر مامور کیا جاسکے اور نہ کوئی آدمی اس کے مناسب فارغ، چند ماہ تلاش کے بعد اہل شہر کی رائے ہوئی کہ حضرت اقدس مولانا الحاج خلیل احمدصاحب مدرس دوم مدرسہ عالیہ دیوبند کو اس عہدہ کے لئے منتخب کیا جائے کہ حضرت اقدس آفتاب ہند حضرت مولانا مملوک علی صاحب کے نواسہ ہونے کے علاوہ حضرت مولانا محمد مظہر صاحب کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں، اس وجہ سے اور نیز مظاہر علوم کے فارغ التحصیل ہونے کی وجہ سے آپ کی صدارت مدرسہ کے لئے بہت زیادہ نافع ہوگی، اس بناپر حضرت اقدس گنگوہی نوراللہ مرقدہ کی خدمت میں یہ درخواست کی گئی کہ چونکہ جناب والا ہر دومدرسوں کے سر پرست ہونے کے ساتھ ساتھ اس گروہ کے مربی بھی ہیں، اس لئے جناب کے امر پر حضرت اقدس (مولانا خلیل احمدصاحب) کو بھی انکار نہ ہوگا۔‘‘ (تاریخ مظاہر اول:۷۲۔۷۳) اہل شہر کی اس درخواست کو حضرت گنگوہی نے بہت خوشی کے ساتھ قبول فرمایا اور حضرت مولانا کو اس سلسلے میں ایک مکتوب لکھا جس میں یہ تحریر فرمایا: ’’مدرسہ سہارنپور کی سرپرستی میرے ذمہ کی گئی اور بامجبوری اس امر خیر کو گورا کرنا پڑا، چونکہ ہر طرح اس مدرسہ کی نگرانی میرے ذمہ ہوگئی اس وقت اس کی بہبودی اس ہی امر کو مقتضی ہے کہ آپ فورا مدرسہ دینیہ سہارنپور کی مدرس اعلیٰ قبول کرکے فورا وہاں سے تشریف لے جائیں اہل دیوبند کو آپ کی مفارقت اگرچہ گورا نہیں مگربمقتضائے وقت یہی ضروری ہے ، لہٰذا آپ اس کی تعمیل میں توقف نہ کریں۔‘‘ (از گنگوہ سرائے ، سہ شنبہ ۳ جمادی الثانی ۱۳۱۴ھ) (تاریخ مظاہر اول ۷۳) حضرت گنگوہی کے حکم پر آپ ۵ جمادی الثانی ۱۳۱۴ھ کو دیوبند سے سہارنپور تشریف لے آئے اور اپنے استاذ حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتوی م۱۳۰۲ھ کی مسند درس کو رونق بخشی، آپ کی تنخواہ ۴۰ روپے مقرر ہوئی، اس وقت مدرسہ مظاہرعلوم میں مولانا عنایت الٰہی صاحب مہتمم تھے اور مولانا ثابت علی اور مولانا محمد احکم مدرس تھے۔مدرسہ مظاہرعلوم ایک بابرکت دور میں : حضرت گنگوہی کی سرپرستی کے بعد ہی حضرت مولانا کی صدر مدرسی نے مدرسہ مظاہر علوم کے لئے ترقی کادروازہ کھول دیا، اور مختلف حیثیتوں سے اس مدرسہ نے امتیاز وشرف حاصل کرلیا، طلبہ کی تعداد بھی بڑھی اور اہل علم وفضل کارجوع بھی بڑھا۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہٗ تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ سال مدرسۃ العلیہ مظاہر علوم کے لئے باب ترقی مفتوح ہونے کا مبارک سال تھا، امسال باوجودیکہ قحط عامہ نے تمام عالم کواسقدر گھیر رکھا تھا کہ اگر انفاس قدسیہ کی برکت نہ ہوتی تو شاید مدرسہ اس قحط کا تحمل نہ کرسکتا لیکن اسی سال کے شروع میں حضرت قطب