حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عرض کروں؟ بجائے قرب ووصال بعد مہجوری صرف فقد حال ہی نہیں بلکہ مضیق ہوگیا کہ نہ کوئی صورت قرب ہے نہ وصال ہے، نہ مشاہدہ ہے (مالی ولرب الأرباب جل وعلی شانہ) ابتدا سے اس وقت گوکبھی اس ناکارہ سے کچھ نہ ہوسکا پر لطف خداوندی جل شانہ بطفیل توجہات غریب نواز شامل حال رہا، ہمیشہ امتثال اوامر میں مقصر رہا، پرحضرت غریب نواز نے اپنی ذرہ نوازی کم نہ فرمائی، اسی وجہ سے کچھ ہمت بندھی رہی، اب اس وقت کم ہمت ٹوٹی جاتی ہے بلکہ ٹوٹ گئی ، سچ ہے ’’ما عرفناک حق معرفتک‘‘ جو چیز خیال کی جاتی ہے غیر نظر آتی ہے، انوار غیر ہیں وجود غیر ہے، حیرت غیر ہے، دل چاہتاہے کہ بے کیف وادراک ہو پرمحال نظر آتاہے، بے کیف ادراک نہیں ہوتا، اور جوادراک ہوتاہے وہ یکتف ڈھونڈنے تجھ کو بتا جاؤں کہاں؟ غرض عجیب ادھیڑ پن میں طبیعت مبتلا رہتی ہے، اور نظر لطف کی امید واری ، ابتداء حال میں تو وجود کی چادر پارہ پارہ معلوم ہوتی تھی اب تلاش سے بھی کہیں پتہ نہیں ملتا، کان لم یکن شیئا مذکورا مگر اس حیرت کے ساتھ ایک تاریکی محسوس ہوتی ہے جو حوالی میں ایک جانب معلوم ہوتی ہے، بایں ہمہ الحمدللہ ثم الحمدللہ حضور قائم ہے اور باطن قلب میں انشراح ہے زیادہ جرأت سمع خراشی گستاخی ہے اگرا س کے متعلق خادم کے لئے کوئی کلمہ مبارک لکھنا مناسب ہوتو ارشا دفرمائیں کہ موجب طمانیت اور تسلی ہو۔ کردریدئہ دل کے طبقے بہ روشن کہ ہو ایک رشک مہ چاردہ تم سنا ہے کہ تم نور سے اپنے کرتے منور بیک جلوہ چودہ طبق ہو عرضداشت کمترین غلامان نظر لطف کا امیدوار خلیل احمد عفی عنہ از سہارنپور ۹ذی قعدہ یوم جمعہ ۱۳۱۵ھ (مکاتیب رشید یہ :۳۶) حضرت مولانا نے یہ مکتوب اپنے سہارنپور تشریف لانے اور مظاہر علوم کا صدر مدرس بننے کے تقریبا ڈیڑھ سال کے بعد حضرت گنگوہی کو تحریر کیا، اس مکتوب سے یہ معلوم ہوتاہے کہ آپ کتنے باہمہ وبے ہمہ اور بے نفس انسان تھے، اور اپنے کو شیخ ومرشد کے سپرد مکمل طور سے کردیاتھا، حضرت گنگوہی نے اس مکتوب کا حسب ذیل جواب مرحمت فرمایا:حضرت گنگوہی کا جواب : از بندہ رشید احمد عفی عنہ بعدسلام مسنون آنکہ خط پہنچا حال معلوم ہو ا جو کچھ آپ نے حیرت لکھی ہے وہ عین تقرب ہے