حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بڑے درد انگیز الفاظ ارشاد فرمائے ۔مولانا عاشق الٰہی میرٹھی تحریر کرتے ہیں: ’’حضرت کو مولانا کے ساتھ کئی طرح کی محبت تھی کہ چچا زاد بھائی تھے،بچپن کے ہمجولی اور ہم عصر تھے ،ہر معاملہ میں عرصہ دراز تک ساتھ ساتھ رہے تھے ،سمدھی تھے کہ آپ کے صاحبزادے حافظ ابراہیم کا مولانا کی صاحبزادی سے عقد ہواتھا،ہم مکتب اور پیر بھائی تھے اور ایک شیخ سے اجازت پائے ہوئے ،دونوں حضرت امام ربانی کے خلیفہ تھے اس لئے جب آپ کے کانوں میں یکایک اس سانحہ کی خبر پہونچی تو گویا آپ کی کمر شکستہ ہوگئی،وطن میں خبر پہونچتے ہی اعزاء مالیر کوٹلہ گئے جب ان کی واپسی ہوئی تو حضرت نماز جمعہ کے لئے جامع مسجد جا چکے تھے۔۔۔اور خطبہ شروع ہوگیا تھا۔سنن سے فارغ ہوکر حضرت چلے تو آنے والے صاحب نے مصافحہ کیا ،میں نے دیکھا کہ حضرت وہیں بیٹھ گئے،اور مرض وفات کے مفصل حالات سنتے اور پوچھتے رہے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۲۲۲) اس کے بعد مولانا صدیق احمد صاحب کے مرض وفات اور انتقال کی کیفیت اس طرح تحریر کرتے ہیں: ’’جولائی ۲۵ھ میں حسب معمول مع اہل و عیال وطن آکر موسم انبہ کے ختم پر ستمبر میں واپس ہوئے تو گردن و شانہ کے درمیان خفیف درد ہوگیا،جس کا علاج اول یونانی ہوا اور اس سے نفع نہ ہونے پر ڈاکٹری،چنانچہ چند روز بعد درد جاتا رہا،پنجشنبہ ۲۷صفر ۴۴ھ کو داڑھی میں مہندی کا خضاب لگایا اور غسل فرماکر کپڑے بدل کر بعد نماز عصر معالج کا شکریہ ادا کرنے چلے،دروازہ میں آکر کچھ ضعف معلوم ہوا اور وہیں بیٹھ گئے،ذرا دیر ہمت فرماکر اٹھے اور ڈاکٹر صاحب کی توجہ کا شکریہ ادا کرکے گھر آئے،کھانا کھایا اور مغرب کی نماز پڑھی ،مسجد سے واپسی میں پھر ضعف محسوس ہوا کہ چلتے چلتے ٹہر گئے اور پھر ہمت کرکے مکان کے بالا خانہ پر حسب عادت جالیٹے،عشاء کی نمازکو پھر مسجد میں آئے اور باجماعت ادا فرماکر مکان پہونچے،حسب معمول آخر شب کے لئے پانی بھر کر لوٹا رکھا،کوٹھری کو جس میں آپ کی مختصر اشیاء ضروریہ رکھی رہتی تھیں قفل لگایا،اور گیارہ بجے تک چارپائی پر لیٹ رہے،مگر آرام نہ آیا تو بیچین ہو کر آٹھ بیٹھے اور ذکر جہر شروع کر دیا کچھ دیر بعد قضاء حاجت کو گئے اور واپسی میں ضعف زیادہ ہوگیا،فرمایا سینہ میں درد معلوم ہوتا ہے ،آپ کے صاحبزادہ مولوی شفیق احمد نے سیکھنا شروع کیا،مگر دیکھا کہ آواز پست ہوتی جارہی ہے ،دوبارہ قضاء حاجت کے لئے چوکی قریب رکھی گئی اور آپ فارغ ہوکر تکیہ سرہانے رکھ کر لیٹ رہے،اب ذکر کی آواز اتنی کمزور ہوگئی کہ بہ دشواری سنائی دیتی تھی ،بارہ بجے شب کو دفعۃً بلند آواز سے اﷲ کہا اور روح رفیق اعلیٰ سے جاملی،اگلے دن جمعہ کو مالیر کوٹلہ کے گورستان میں دفن ہوئے اور اس طرح پر ایک نماز قضاء کئے بغیر چند لمحات میں آخر کا کٹھن سفر ختم فرمالیا۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۳۲۶)مدرسہ کے نئے سر پرست : مدرسہ مظاہر علوم کے دو سرپرست شاہ عبد الرحیم صاحب رائیپوری اور مولانا احمد صاحب رامپوری کے انتقال کے بعد اس کی بڑی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔کہ نئے سرپرست مقرر کئے جائیں اور چونکہ حضرت مولانا حجازتشریف لے جانے والے تھے اس لئے اس کی ضرورت اور زیادہ محسوس ہورہی تھی حضرت مولانا نے اس سلسلہ میں یہ اقدام فرمایا کہ مولانا عبدالقادر صاحب رائیپوری اور شیخ رشیداحمد صاحب ومولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی کو سرپرستان میں لئے جانے کی تجویز پیش کی