حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مدرسہ والوں کے گہرے تاثر اور آپ کے موجود نہ ہونے سے جو رنج وغم طاری تھا اس کی کیفیت مدرسہ کی روئیداد کی حسب ذیل عبارت سے معلوم ہوگی۔ ’’اس گلستان خلیل اللہی کا وہ باغبان باغ کے اندر نظر نہیں آتا جس کا پیارا نام خلیل احمد ہے، سارے مکان کا فرش وسقف اور دیوار درسجا ہوا مگر اس کا صدر نشین مکین باہر گیا ہواہے، باغیچہ کے اندر پھل اور پھول ہر قسم کے درخت دکھائی دے رہے ہیں مگر افسوس کہ وہ مستودہ صفات جس کو ہر شجر ونہال کے برگ وبار سے خاص انس خاص علاقہ اور دلچسپی تھی، ہند کی زمین چھوڑ کر سمندر پارعرب کی مقدس زمین پر جلوہ فرمایا ہے،وہ نورانی چہرہ جس کو پھول سے تشبیہ دینا تنقیص شان ہے آج ہم میں موجود نہیں کیونکہ مولانا ممدوح ماہ شوال ۱۳۴۳ھ میں بقصد زیارت حرمین شریفین حجاز تشریف لے گئے، یہ بالکل صحیح ہے کہ پاک اجسام کے لئے قیام بھی پاک زمین پر شایاں ہے اور حضرت ممدوح کے ہر کمال علمی وعملی کے متعلق خوش نصیبی جملہ صلحاء واولیاء کے لئے مایۂ ناز ہے۔ زہے سعادت آں بندہ کہ کرد نزول گہے بہ بیت خداد گہ بہ بیت رسول مگر اس کے ساتھ ہی جب یہ سماں نظر کے سامنے ہو کہ آسمان پر تارے چمکے ہوئے نظرآویں اور ماہتاب موجود نہ ہو تو ہر شخص کے لئے چشم نما ہونے کا وقت ہے۔‘‘ (روائداد مدرسہ:۳۰۲)مدرسہ کاسالانہ جلسہ اور آپ کی منقبت میں ایک نظم : حضرت مولانا کے حجاز تشریف لیجانے کاآٹھ ماہ بعد مدرسہ کا سالانہ جلسہ ہوا، جلسہ کی تاریخ جمادی الاولیٰ ۱۳۳۴ھ مطابق مارچ ۱۹۱۶ء تھی اور جلسہ کی جگہ جامع مسجد سہارنپور تھی، یہ جلسہ آپ کی غیر موجودگی میں ہوا جس میں اس وقت کے مشہور علماء شریک ہوئے، علماء کے علاوہ ایک بڑا مجمع جمع ہوگیا تھا، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ کی تقریر ہوئی، حاضرین جلسہ میں ہر شخص کی آنکھیں آپ کو ڈھونڈ رہی تھیں اور آپ کی غیر موجودگی کااثر محسوس کیاجارہاتھا، اس جلسہ میں مولانا ظفر احمدصاحب تھانوی نے آپ کی شان میں ایک عربی نظم پڑھی ، وہ حسب ذیل ہے: تلوم علی حب الخلیل ولم یکن یسو قلبی عن وراد خلیل قدتہ نفوس العاشقین فانہ لعمری شفاء کل قلب علیل تراہ اذا ما جئتہ تھللا بنور من اﷲ العظیم جلیل