حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
درگور برم از سرے گیسوے تو تارے تا سایہ کند بر سر من روزے قیامت ایک بار آپ نے اپنے شیخ ومرشد حضرت گنگوہی کو ایک خواب تحریر کیا جس میں آپ نے بیان کیا تھا: ’’حضرت میں اعتکاف میں تھا، خواب میں دیکھا کہ خربوزہ تراش رہا ہوں، اور قاشین آپ کو دے رہا ہوں، آپ رغبت کے ساتھ کھارہے ہیں، اور کھانے کے وقت آپ کے دہن سے جو لعاب وغیرہ گرتاہے وہ میں اپنی زبان پر لیتاہوں، حضرت گنگوہی مسکرائے اور ارشادفرمایا: ’’تم خود سمجھتے ہوگے ،آخرنسبت تو ایک ہی ہے۔‘‘ سطور بالا سے یہ اچھی طرح ظاہر ہوچکا ہے کہ ان دونوں حضرات کے درمیان کتنی مودت، کتنی محبت ،کتنی عقیدت اورکتنا کمال اتحاد تھا حضرت مولانا کو اپنے شیخ ومرشد سے کتنا تعلق اور کتنا ادب واحترام تھا۔ ساقی کے فیض مست نگاہی کے میں نثار ایک ایک موج میٔ کو رگ جاں بنادیا اس لئے باوجود مشغولیت شب وروز، درس وتدریس ،مطالعہ،ذکروشغل، اور تنظیمی امور کے انجام دینے کے اپنے شیخ ومرشد سے برابر تعلق رکھا اور کسی وقت بھی اپنی حالت پر اطمینان نہیں کیا بلکہ موقع نکال نکال کر گنگوہ حاضر ہوتے، قیام فرماتے اور واپس آنے کے بعد بار بارخط وکتابت کے ذریعہ اپنے حالات اور کیفیات تحریر فرماتے اور ارشادات پر عمل کرتے۔ ۱۳۱۵ھ میں جب کہ آپ کی عمر ۴۶ سال کی تھی اجازت وخلافت کی دولت سے مالا مال اور دوسروں کی تعلیم وتربیت کرنے کے باوجود اپنے کو طالب علم سمجھتے اور اپنے شیخ کی تربیت کے محتاج رہتے، اس سلسلے میں آپ کے ایک مکتوب اور آپ کے شیخ ومرشد حضرت گنگوہی کے جواب کو یہاں پر نقل کیاجارہاہے جو آپ کی سیرت اور حالات پڑھنے والوں کے لئے مفید ہوگا۔حضرت مولانا کا مکتوب گرامی : حضرت سیدی ومولائی وسیلہ یومی وغدی ادام اللہ ظلال برکاتکم کمرتین غلامان کہترین عتبہ وسان ننگ خدام خلیل ذلیل تبلیغ تحیات وتسلیمات کے بعد ملتمس عرضداشت ہے، عرصہ سے ارادہ ہوتاتھا کہ اپنا ناکارہ حال پراز حزن وملال عرض کروں، مگر جرأت وگستاخی اور توسط وسائط کا خلجان وبال جان ہوکر مانع ہوتا رہاہے، پہلے تو اس وجود منبسط کے ساتھ تعلق بطفیل توجہات وابستگی ہوکر ایک گونہ طفیل تسلی ہوگئی تھی، مگر ایام صیام مبارک سے اس گرد اب حیرت میں مبتلا ہوں کہ کیا