حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہوسکا تو بعد ظہر دونوں اکابر کے یہاں سے اس ناکارہ کے لئے اہتمام سے کھانا علیحدہ علیحدہ آیا اور اس یکسالہ قیام میں اس سیہ کار کو خود اپنا کھانے کا انتظام نہیں کرنا پڑا کھانے سے فراغ کے بعد حضرت زنانہ مکان میں تشریف لے جاتے تھوڑی دیر قیولہ کے بعد زوال سے قبل مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے اور زوال سے تھوڑی دیر بعد ظہر کی آذان ہوجاتی اور چند منٹ بعد ظہر کی نماز سے فراغ کے بعد حضرت قدس سرہٗ تقریباً ایک گھنٹہ قرآن پاک کی تلاوت فرمایا کرتے اور اس کے بعد وفاء الوفا کا مطالعہ فرمایا کرتے اور عصر کی نماز کے بعد جو ایک مثل پر ہوجاتی تھی مولانا سید احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے مکان پر تحتانی منزل میں جو مولانا سید احمد صاحب کی قیامگاہ تھی مغرب تک تشریف فرما ہوتے یہ مجلس مجلس عامہ ہوتی تھی جس میں مقامی حضرات بھی تشریف لاتے اور آفاقی زائرین مدینہ بھی اور حضرت مولانا سید احمد صاحب بہت ہی مسرت اور ابتہاج کے ساتھ لطائف اور حکایات کے ساتھ سادی سبز چائے کے فنجانوں کا دور چلاتے ایک چمچہ پر سید صاحب مرحوم نے مشک وغیرہ پگھلا کر جما رکھا تھا جس کا نام چمچہ قدرت تھا وہ خاص خاص فجانوں میں خوب پھرایا جاتا۔معمولات رمضان : حضرت مولانا نے اس آخری سفر میں دو رمضان گزارے پہلا رمضان مکہ مکرمہ میں اور دوسرا اور آخری رمضان مدینہ منورہ میں ،اس مدنی رمضان میں آپ کے معمولات ایسے تھے کہ جوان سے جوان آدمی بھی ان کو نہ نبھا سکے حالانکہ آپ کی عمر آخری منزل میں تھے ضعف اور نقاہت اپنی حد کو پہنچ چکی تھی لیکن ہمت جوانوں سے بڑھ کر پائی تھی اور اس میں یقین وتوکل خوف خدا اور آخرت کی تیاری کا بڑا دخل تھا حضرت شیخ مدظلہٗ رمضان کے معمولات کا ذکر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’رمضان المبارک میں حضرت کے تمام معمولات تقریباً ختم ہوگئے چنانچہ صبح کو اشراق کے بعد دیر تک تلاوت فرماتے اور تھوڑی دیر قیولہ کے بعد زوال سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور ظہر واپس مکان پر تشریف آوری ہوتی بعد ظہر اس ناکارہ کو قرآن پاک سناتے اور معمول کے مطابق بعد نماز عصر مولانا سید احمدصاحب کی قیام گاہ پر تشریف لاتے وہیں کھجور و زمزم سے روزہ افطار کرتے مغرب کی نماز کے بعد مدرسہ علوم شرعیہ کی چھت پر تشریف لے جاتے اور نوافل میں اس ناکارہ کو دوسپارے سناتے اتنے میں عشاء کا وقت شروع ہوتا نماز عشاء سے فارغ ہوکر پھر اسی جگہ آتے اور قاری محمد توفیق صاحب کی اقتدامیں تراویح پڑھتے یہ نماز بڑے اطمینان سے ہندوستانی وقت کے مطابق سوابارہ بجے ختم ہوتی تھی اس کے بعد عربی ۶بجے کے قریب آرام فرماتے اور اس ناکارہ کے لئے حکم تھا کہ آٹھ بجے اٹھادینا مگر ایک دو دفعہ کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ حضرت کو بیدار کرنا پڑا بلکہ جب بھی میں پہنچا حضرت کو بیدار پایا ،اس کے بعد مدرسین پڑھنے والے دو طالب علموں سے قرأت نافع میں علیحدہ علیحدہ دو پارے سنتے کیونکہ حضرت کو ایک طویل عرصہ سے قرأت نافع کے سننے کا بڑا شوق تھا۔(تاریخ مشائخ چشت:۳۱۴) حرم نبوی میں نماز کا اہتمام: حضرت مولانا کو حرم نبوی میں اگلی صف میں نماز پڑھنے کا بہت زیادہ اہتمام رہتا تھا گرمی جاڑا ہویا برسات کا موسم ہو آپ کسی