حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(تذکرۃ الخلیل:۳۶۶) نینی تال میں طرح طرح کے سوالات کئے گئے اورآپ کوپریشان کیا گیا۔ آپ سے پوچھا گیا: ’’کیا آپ نے ہندوستان کو دارالحرب بتایا ہے کہ یہاں رہنا مسلمانوں کو حرام اور ہجرت کرنا واجب ہے؟‘‘ آپ نے اس سوال کاجواب استغناء اور بے خوفی سے دیا: ’’ہاں ضرور کہا مگر اس وقت جب کہ دہلی سے اطلاع ملی کہ گورنمنٹ ہم کو ہمارے مذہب اسلام کے خلاف حکم دینے پر مجبور کرتی ہے۔‘‘رہائی اور دارالعلوم دیوبند میں تشریف آوری : حضرت مولانا کچھ عرصہ تک نینی تال میں اسیر رہے آپ کی اسیری اور نینی تال کی روانگی سے جہاں سارے اہل تعلق پریان اورد لگیر تھے وہاں خصوصیت کے ساتھ علماء دیوبند اور اکابر مدرسہ دیوبند متفکر تھے، مولانا سید اصغر حسین صاحب تحریر کرتے ہیں: ’’دارالعلوم کے متعلق کی کلفت کو محسوس کرکے اور عام اہل اسلام کے اضطراب کو دیکھ کر مولانا حافظ احمد صاحب مہتمم دارالعلوم مدظلہم خاموش نہ رہ سکے اور چند معزز علماء کو بصورت وفد لے کر تکلیف سفر برداشت کرتے ہوئے نیتی تال پہنچے اور لفٹنٹ گور نر صاحب کی خدمت میں بازیاب ہوئے، اس وفد کے پہنچنے کے دوسرے ہی روز مولانا صاحب بعزت واحترام بالکل آزادی کے ساتھ نیتی تال سے رخصت کردئیے گئے اور سب اراکین وفد مولانا کے ساتھ ہی واپس آئے ،دیوبند میں اسٹیشن پر علماء وطلباء نے شاندار استقبال کیا، اور عظیم الشان مجمع کے ساتھ دارالعلوم میں تشریف لائے دعا فرمائی اور دوسری گاڑی سے سہارنپور تشریف لے گئے۔‘‘(حیات شیخ الہند:۴۷)سہارنپور میں استقبال کرنے والوں کا ہجوم : آپ جس وقت سہارنپور پہنچے تو استقبال کرنے والوں سے اسٹیشن کا پلیٹ فارم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، سہارنپور کے اہل تعلق کے ساتھ ساتھ دور دور سے آئے ہوئے حضرات آپ کو استقبال کررہے تھے، مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی اس منظر کی منظر کشی اس طرح کرتے ہیں: ’’جس وقت حضرت اسٹیشن سہارنپور پہنچے ہیں تو سارا پلیٹ فارم زائرین سے لبریز تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، میں نہیں کہہ سکتا کہ دس ہزار کا مجمع تھا یا بیس ہزار کا، مگر مجھے یہ اندیشہ تھا کہ اژدھام میں دوبار کا پس جانا بعید نہیں۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۳۹۶) آپ جس وقت سہارنپور کے اسٹیشن پر اترے تو بہت زیادہ تھکے ہوئے نظر آرہے تھے، مگر اتنے بڑے اجتماع سے جس خندہ پیشانی سے ملے وہ آپ کے حسن اخلاق ، ایثار اور سادگی وخاکساری کا ثبوت ہے، مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں: ’’اللہ رے حضرت کا استقلال کہ سفرپر سفر کا تعب اٹھاتے آرہے تھے مگر سبھی سے مسکراکر مصافحہ ومعانقہ کیا اور باہر سواری میں بیٹھتے وقت اس طمانیت سے دریافت کیا کہ میرے رفقاء بھی سوار ہولئے یا نہیں اور جب اطمینان ہوگیا کہ سب بیٹھ گئے تب آپ کی سواری