حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مجھے ہاتھ آئے اگر گیسو تری زلف معنبر کا تمنا ہے کہ صحرا پر ترے خاروں کے جالوٹوں رگ مجنوں کو پھر سودا ہوا ہے نوک نشتر کاساتواں اور آخری حج : حضرت مولانا کی ہمیشہ یہ تمنا رہی کہ حجاز تشریف لے جاکر مستقلاً مدینہ منورہ میں قیام اختیار کرلیں اسی تمنا میں بار بار حج فرماتے مگر کوئی نہ کوئی بات ایسی ہوجاتی کہ واپس آنا پڑتا اور یہ دل کی تمنا دل ہی میں رہ جاتی ۱۳۴۴ھ میں طویل قیام کے ارادے سے حج کا سفر کیا اور مدرسہ سے ڈیرھ سال کی چھٹی لی اور مدرسہ کا انتظام فرماکر یعنی مولانا عبدالطیف صاحب کو ناظم اور مہتمم اور مولانا عبدالرحمٰن صاحب کاملپوری کو صدر مدرس منتخب فرما کر تشریف لے گئے۔اعزہ اور احباب سے رخصتی ملاقات : آپ نے اس آخری سفر حج سے پہلے اپنے اعزا رفقاء اور اہل تعلق سے سفر کر کر کے ملاقات کی ،انبٹہہ،گنگوہ،دیوبند،کاندھلہ اور میرٹھ تشریف لے گئے جس جس سے ملاقات فرماتے اس سے ارشاد فرماتے میرا کہا سنا معاف کرنا میں عرب جارہا ہوں کسی نے اگر جواب دیا کہ اﷲ تعالیٰ آپ کا سفر مبارک کرے اور بخیریت واپس لائے تو فرمایا۔ ’’بھائی جب میرا شباب تھا تو جب کبھی حاضر آستانہ ہوا ہوں یہی تمنا ساتھ لے کر گیا ہوں کہ وہاں کی پاک زمین مجھے نصیب ہوجائے ،اب جبکہ تمام میرے ساتھ کے کھیلے ہوئے میرے ساتھ کے پڑھے ہوئے میرے ہم عصر عزیز دوست ایک ایک کر کے ملک کی بقا کو راہی ہوچکے ہیں کب تک زندہ رہوں گا اب اس موقع پر جارہا ہوں کہ شاید اب میرا وقت آگیا ہو اور مدینہ طیبہ کی خاک پاک مجھے نصیب ہوجائے اور جوار نبوی میں مجھ کو بھی جگہ مل جائے دعا کرو حق تعالیٰ ایمان کے ساتھ اٹھنا نصیب فرمائے اور مراد پوری کرے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۴۴۸)روانگی سے پہلے : چونکہ یہ سفر طویل تھا اور حقیقتاً آخری تھا اس لئے آپ نے اس طویل سفر سے پہلے کئی مقامات کے سفر کئے جن سے بھی مل سکتے تھے ملے اور ان سے رخصت ہوئے۔حافظ فخرالدین صاحب جو آپ کے مجاز تھے شدت تاثر میں عرض کرنے لگے کہ : حضرت کے اس مبارک ارادہ ہجرت سے خدام پریشان ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ ہم کیا کریں؟ اس دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا: ’’پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں عادۃ اﷲ اسی طرح جاری ہے اور سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ہے کہ جب کوئی شخص وصال کرتا ہے تو اس کے خلف کام کرتے ہیں اور ان سے مخلوق ہدایت و فیضان حاصل کیا کرتی ہے پس میرے لوگوں کو چاہئے کہ میرے خلفاء میں سے جس کی طرف چاہیں رجوع کریں اور اپنا کام کرتے رہیں میں آخر ہندوستان میں ہی رہتا تو کب تک زندہ رہتا۔‘‘(تذکرۃ