حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
بذل المجہود جلد اوّل کی طباعت : حضرت مولانا کا عزیز ترین مشغلہ بذل المجہور کی تصنیف اور تالیف کا تھا اس میں آپ نے جو محنت کی وہ ساری محنتوں پر غالب رہی،آپ کی تمنا تھی کہ اس کی طباعت بھی شروع ہوجائے اور اپنے عزیز ترین شاگرد شیخ کو اس میں لگا دیا جن کی محنت اور دوڑ دھوپ نے وہ وقت دکھایا کہ ۱۳۴۲ھ میں اس کی پہلی جلد طبع ہوکر آگئی،اس کی طباعت میں جو خرچ ہوا وہ حضرت مولانا نے اپنی جیب سے ادا کیا اور آپ کے متوسلین اور روحانی فرزندوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،اس کی طباعت سے حضرت مولانا کو بے انتہا خوشی اور مسرت ہوئی اور اس کی طباعت پر پھر وہ بزرگ یاد آگئے جو ترتیب و تالیف کے وقت یاد آئے تھے یعنی حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی اور مولانا محمد یحییٰ صاحب جو اگر ہوتے تو آپ کی مسرت میں اسی طرح شریک ہوتے جتنے آپ مسرور ہوئے۔رنگون کا سفر : مدرسہ مظاہر علوم سے دلچسپی رکھنے والے اور فراغت پانے والے بڑی تعداد میں برما میں قیام پذیر تھے ،ان میں بعض ایسے صاحب استعداد علماء تھے جنھوں نے پورے برما میں تبلیغ و اشاعت اور علم دین کی خدمت کا کام اپنے ہاتھوں میں لے رکھا تھا اور بعض بڑے عہدوں پر فائز اور اور بڑے تاجروں میںسے تھے ،درس و افتاء ،تصنیف و تالیف کا کام جاری تھا اسکے علاوہ حضرت مولانا کے متوسلین بھی معتد بہ تعداد میں رنگون ،مانڈلے اور دوسری جگہوں پر اپنے کاموں میں مشغول تھے اور سب کی مدت سے یہ تمنا اور آرزو تھی کہ حضرت مولانا ایک بار برما تشریف لے جائیں تو ان سارے متعلقین کے دلوں کی آرزو پوری ہواور استفادہ کرنے والوں کی تعداد بڑھے ،حضرت مولانا اپنی مشغولی،ضعف و نقاہت،کی وجہ سے ہر بار انکار فرمادیتے تھے،جب اہل تعلق کا اصرار بڑھا تو حضرت مولانا نے شعبان ۱۳۴۲ھ میں قدم رنجہ ہونے کا وعدہ فرمالیا اور امتحان سالانہ کے بعد اپنے مخصوص خدام اور ذمہ داران مدرسہ کے ساتھ برما کا سفر کیا،آپ کی ہمر کابی میں مدرسہ کے ناظم مولانا عبدالطیف صاحب ساکن پور قاضی،مدرسہ کے اساتذہ میں مولانا منظور احمد خانصاحب سہارنپوری ،مولانا محمد زکریا صاحب قدوسی گنگوہی تھے۔ حضرت مولانا نے پورا رمضان المبارک رنگون میں گزارا،آپ کے رمضان مبارک میں جو معمولات رہتے تھے اس سے اہل رنگون کو بڑا دینی فائدہ پہونچا ، شب و روز کی تلاوت ،عبادت ، ملفوظات و ارشادات،وجہ اور بیعت و ارشاد رنگون کی فضا پرانوار ہوگئی اور ایسی اصلاح ہوئی کہ نہ جانے کتنے انسانوں کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلی کا سامان ہوگیا،تجارت پیشہ حضرات ،عہدیدار اور ملازم غرض کہ سب ہی طبقوں سے تعلق رکھنے والوں کو زندگی کا مزہ آگیا،اور آپ سے تعلق قائم کرکے اﷲ والوں میں شامل ہوگئے۔ عمومی فائدہ پہونچنے کے ساتھ ساتھ مدرسہ مظاہر علوم کو بھی بہت فائدہ ہوا،اہل برما نے دل کھول کر مدرسہ کی مدد کی اور گراں قدر عطیہ سے اس درسگاہِ دین کو فائدہ پہونچایا۔حاجی محمد یوسف رنگونی نے نہ صرف نقد عطیہ دیا بلکہ مدرسہ کے اساتذہ اور ملازمین کو ایک ایک جوڑا کپڑا ہدیہ پیش کیا۔