حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گنگوہ کی حاضری : جب آپ گوالیار سے انبہٹہ آئے اور وہاں اپنے والد ماجد کی خدمت میں رہ کر اپنی تعلیم جاری رکھی تو غالبا ۱۲۸۲ھ یا ۱۲۸۳ھ میں رمضان کے مبارک مہینے میں آپ گنگوہ تشریف لے گئے کہ حضرت گنگوہی سے آپ کے خاندانی رشتے تھے، آپ نے گنگوہ جاکر نہ صرف یہ کہ حضرت گنگوہی کی زیارت کی بلکہ ان کے پیچھے قرآن شریف بھی سنا اس کا جو کیف وسرور اور حضرت والا کی طرف جوکشش ہوئی، اس کے متعلق آپ فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ میں (غالبا بارہواں، چودہواں سال ہوگا) رمضان میں گنگوہ گیا اور شب کو آپ کا قرآن شریف سننے کے لئے خانقاہ حاضر ہوا، اوردرخت نیم کے نیچے کھڑے ہوکر سنا، اس وقت آپ تراویح پڑھارہے تھے، آپ نہایت خوش الحانی سے پڑھ ہے تھے کہ اس وقت تک اس کی حلاوت قلب میں ہے، اور اس میں اشحۃ علی الخیر یاد ہے، اور اب کہہ سکتاہوں کہ آپ اس وقت سورئہ احزاب پڑھ رہے تھے۔‘‘ (تذکرۃ الرشید حصہ اول :۱۵۷) حضرت گنگوہی کی خدمت میں حضرت مولانا اس رمضان کے بعد بار بار جانے لگے، ان کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کے ارشادات سننے کا موقع ملا جس کی وجہ سے حضرت گنگوہی کی عظمت، ان کی محبت اور عقیدت دل میں بیٹھنے لگی، آپ فرماتے ہیں: ’’اثناء طالب علمی میں میری شادی گنگوہ میں ہوئی اور اس وجہ سے مجھے گنگوہ قیام کا زیادہ اتفاق ہوا، اور قیام گنگوہ کے زمانے میںحضرت ؒ کی خدمت بابرکت میں اکثر حاضر رہتاتھا، مجھ کو خوب یاد ہے کہ مجھے اس وقت آفتاب کی طرح محسوس ہوتا تھا کہ اس احاطۂ مبارک میں ایک نورانیت اور قلب میں بشاشت اور طمانیت محسوس ہوتی تھی حالانکہ اس وقت میں مرید تھا، نہ چنداں معتقد تھا، دوسرے اس وقت جو لوگ حاضر باش آستانہ تھے حافظ عبدالرحمن صاحب ومولوی الطاف الرحمن صاحب وغیرہ ان کے نفوس اخلاق رذیلہ سے مزکی اور اوصاف حمیدہ کے ساتھ محلی فیض صحبت کی برکت سے پاتا تھا، ان کے اخلاق وسادگی اور اتباع سنت کی محبت اور بدعت سے نفرت گویا بالکل نقل صحابہ ؓ تھی مگر بایں ہمہ یہ خیال نہیں پیدا ہوا کہ حضرت سے درخواست بیعت کروں۔‘‘ (تذکرۃ الرشید ۱/۱۵۷)میلان طبع : حضرت مولانا مدرسہ مظاہر العلوم میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے مولانا محمد مظہر صاحب نانوتوی کی خدمت وصحبت میں رہے، اور انہیں سے حدیث کی تکمیل کی استاذ محترم کی محبت وعقیدت دل میں گھر کئے ہوئے تھی، آپ اپنے محترم استاذ کے ہر قول وفعل کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے اور اس کی اتباع کرنے کی کوشش کرتے۔ آپ نے تعلیم کے پورے دور میں اس کے بعد بھی بارہا دیکھا کہ آپ کے استاذ محترم گنگوہ میں تشریف لے جاتے ہیں اور حضرت گنگوہی ؒ کے