حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خالی بیٹھنے کا مشغلہ بھی مجھے ہاتھ آگیااور پکانے کی مصیبت سے بھی نجات مل گئی۔‘‘ چند روز بعد جدہ کا بندر نظرآیا اور میں نے نواب صاحب سے کہا کہ یہاں کشتیوں کے ملاح اسباب کی چھین جھپٹ میں بہت پریشانی کرتے ہیں اور اسباب ضائع ہوجاتاہے، لہٰذا یہاں کا انتظام میرے سپرد کردیجئے چنانچہ اول میں نے سارے اسباب کو یکجا کرایا اور ملازمین کو اس کے چاروں طرف کھڑا کردیا کہ کسی کو ہاتھ نہ لگانے دیں میں نے اپنا مختصر اسباب بھی اس میں شامل کردیا اور چونکہ مجھے عربی آتی تھی اس لئے ملاحوں کے جہاز پر حملہ کرتے وقت میں نے علیحدہ جاکر ایک ملاح سے عربی میں باتیں کرکے پوری کشتی کا کرایہ طے کرلیا اور اس کو اسباب دکھاکر ملازمین سے جو اسباب کا احاطہ کئے کھڑے ہوئے تھے کہہ دیا کہ عدد شمار کرکے اس کو دیدو اور اس کے علاوہ کسی کو پاس نہ آنے دو، چنانچہ اول سارا اسباب بحفاظت تمام کشتی میں پہنچ گیا اور پھر ہم سب اطمینان کے ساتھ اس کشتی میں آبیٹھے، نواب صاحب میرے حسن انتظام پر بہت مسرور اور ممنون ہوئے کیونکہ دوسرے حجاج کی پریشانیاں اور نقصان دیکھ رہے تھے کہ چاروں طرف گمشدگی اسباب کا شور مچ رہا اور مسافر بلبلا رہے ہیں۔ جدہ شہر میں داخل ہوکر میں نے اصل مسودہ اور اس کی خوشخط نقل نواب صاحب کو پیش کرکے اجازت چاہی کہ مجھے آزاد فرماویں ہر چند نواب صاحب نے اصرار کیا کہ میں تم کو نا واپسی وطن علیحدہ نہیں کرسکتا، مگر میں نے کہا کہ یہاں میں نوکری کے لئے نہیں آیا، اللہ کے گھر حاضر ہوکر بھی بندگان خدا کاغلام بنارہاتو حاضری کا لطف ہی کیا ملا ، چونکہ دروازے پر پہنچ گیا ہوں اس لئے اب تو کوئی صورت ہی نہیں کہ تعمیل ارشاد کرسکوں غرض نواب صاحب سے رخصت ہوکر اونٹ پر تنہا سوار ہوکر چل دیا۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۱۰۱) حضرت مولانا نے جہاز کا سفر جس طرح طے کیا اس میں اللہ تعالیٰ کی نصرت شامل حال رہی، آپ نے ساحل جدہ پر جس خوش انتظامی اور ہوشیاری سے کام لیااس کو دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ آپ کا پہلا سفر حج تھا، معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص سفر کررہاہے جوکئی بار حج کرچکاہے اور تجربہ کار اورجہاں دیدہ ہے، نہ پریشانی اور تنہائی کا احساس نہ گھبراہٹ اور دھوکا کھانے کاخیال۔حضرت حاجی امداداللہ صاحب کی خدمت میں : آپ مکہ مکرمہ پہنچے تو حضرت حاجی امداداللہ صاحب ؒ کی خدمت میں پہنچے ،حضرت حاجی صاحب سے اس وقت تک کوئی گہرا تعلق نہ تھامگر چونکہ حضرت حاجی صاحب آپ کے مرشد اور دوسرے بزرگوں کے مرشد تھے اس لئے واقفیت بھی بہت تھی اور انس ویگانگت بھی زیادہ، آپ نے اپنا قیام حضرت حاجی صاحب کے دولت خانے پر کیا اور سارا وقت حرم شریف میںحضرت ہی کے پاس گزارتے تھے اور پورے اطمینان اور سکون کے ساتھ طواف کرتے، نماز پڑھتے اور مجلسوں میں شریک ہوتے۔حضرت حاجی صاحب کا استفسار اور آپ کا شوق زیارت :