حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ذریعہ ہی نہیں ۔ حضرت مولانا نے فرمایا۔ ’’بس میرا مطلب حل ہوگیا اب ملکی معاملات سے مجھے بحث نہیں نہ میں ان کے سمجھنے کا اہل ہوں۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۳۰۲)آپ کے قیام سے چند اصلاحات : حضرت مولانا کے طویل قیام سے مقامی علماء،حکام اور عام باشندوں کے دلوں میں آپ کی عزت اور علمی مقام کا اعتراف پیدا ہوگیا سلطان سے لے کر کرائمہ حرم ،حکام مدینہ، قاضی اور امراء تک سب ہی آپ کی وقعت اور اکرام کرتے تھے آپ نے اس اکرام و احترام سے فائدہ اٹھا کر بعض ایسے احکام و معمول بہ مسائل میں تبدیلی کرائی جن کی وجہ سے غیر حنبلی مسلک رکھنے والے خصوصاً حنفی مسلک کے حامل حضرات کو تنگی اور دشواری محسوس ہوتی تھی ،ان مسائل میں اس جگہ صرف دو مسئلوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ نمبر۱:جمعہ کی دونوں اذانوں کے درمیان فصل نہ کرنے کا معمول بہ مسئلہ جس کی وجہ سے احناف جمعہ کی سنتیں نہیں پڑھ سکتے تھے۔ مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی لکھتے ہیں: ’’ایک مرتبہ قاضی ابن بلیہد آپ کو ہاتھ پکڑ کر اپنی قیام گاہ پر لے گئے۔مختلف باتیں ہوتی رہیں جب انبساط تام ہوگیا تو حضرت نے فرمایا قاضی صاحب مسجد مبارک میں جمعہ کی پہلی آذان کے بعد متصل ہی دوسری آذان خطبہ کی شروع ہوکر خطبہ شروع ہوجاتا ہے جمعہ کی سنتیں پڑھنے کا وقت ہی نہیں ملتا مالکی اور حنبلی ان سنتوں کو ضروری نہیں سمجھتے مگر ہم احناف کے نزدیک تو مؤکدہ ہیں۔ قاضی صاحب نے یہ سن کر حضرت سے پوچھا کہ کس قدر فصل کافی ہے؟ حضرت نے فرمایا ۱۰منٹ قاضی صاحب نے نائب الحرم کو جو وہاں اتفاق سے موجود تھے حکم دیا کہ پہلی اور دوسری اذان میں دس منٹ کا فصل کیاجائے اتفاق سے اگلے ہی روز جمعہ تھا اور نائب الحرم اس حکم کو باقاعدہ جاری نہ کرسکے مگر جب پہلی اذان ہوچکی تو خطیب کو ممبر پر جانے سے ذرا ٹہرائے رکھا اور حضرت کو دیکھتے رہے جب حضرت نے چار سنتیں حسب عادت پورے اطمینان سے ادا کرلیں تب خطیب کو خطبہ کے لئے روانہ کیا اور دوسرے جمعہ سے باقاعدہ اس حکم کا اجرا ہوگیا کہ سنتیں پڑھنے والے بڑے سکون سے قبل الخطبہ سنتیں پڑھنے لگے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۳۰۰) دوسرا واقعہ ایک شافعی امام کا ہے جس نے رکوع سے پہلے آیت سجدہ تلاوت کر کے سجدہ نہیں کیا بلکہ رکوع کر لیا کہ یہ بھی قائم مقام سجدہ کے ہے سلام کے بعد حضرت مولانا نے مسئلہ بیان کرکے حنفی مسلک کا اظہار کیا اور فرمایا چونکہ حنفی مقتدی بھی ہیں اس لئے ان کی رعایت بھی کرنی چاہئے اس پر حضرت مولانا اور امام سے بحث ہوئی بات حکومت تک پہنچی حکومت نے حکم جاری کیا کہ جملہ مذاہب کی رعایت کرتے ہوئے امام کو نماز پڑھنی چاہئے۔ مولانا عاشق الٰہی صاحب اس واقعہ کی تفصیل اس طرح لکھتے ہیں: ’’سلطان کی تشریف آوری سے قبل ایک قصہ یہ پیش آچکا تھا کہ شافعی امام نے صبح کی نماز میں سجدہ تلاوت پڑھ کر رکوع کردیا کہ یہ بھی