حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۳۱۸ھ کے سالانہ جلسے میں حضرت مولانا کی اہم تقریر : ۱۷ذی الحجہ ۱۳۱۸ھ میں حسب معمول مدرسہ کا سالانہ جلسہ ہوا جس میں شرکت کے لئے مختلف اضلاع میں دعوت نامے تقسیم کئے گئے، اس جلسے میں علماء ومشاہیر میں حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رائپوری ، مولانا ذوالفقار علی صاحب، مولانا فضل الرحمن صاحب، شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولاناحافظ احمد صاحب فرزند رشید حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رونق افروز تھے، جلسہ شروع ہونے پر حضرت تھانوی کی تین گھنٹے کی حکیمانہ تقریر کے بعد آپ نے مدرسہ کے حالات جو ایک مقالے کی شکل میں تھے سنائے اس کے بعد ایک موثر تقریر فرمائی، حمدوثناء کے بعدحاضرین کا شکریہ اد ا کیا، پھر جلسہ کے انعقاد کی وجہ اور ضرورت بیان کی اور اس کے بعد عربی مدارس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ اسلامی مدرسے اس تاریکی کے زمانے میں کہ جہل عالمگیر ہے بمنزلہ آفتاب وماہتاب ہیں جو اپنے نور سے عالم کو منور کررہے ہیں ، غور کرکے دیکھو کہ اگر آج یہ اسلامیہ مدارس صفحۂ عالم پر نہ ہوتے تو کیا علوم اسلام عدم کو نہ سدھارجاتے اور بڑے بڑے شہروں میں بھی مسائل کا بتلانے والا نہ ملتا اور اب ان مدارس کی بدولت شہرشہر، قصبے قصبے بلکہ گاؤں میں بھی علماء موجود ہیں جو دین محمدی ﷺ کی اشاعت کررہے ہیں اور خلقت کو گمراہی سے بچارہے ہیں، تو ایسے مدارس کو جو خلافت نبوت کی خدمت کی بجا آوری کررہے ہیں، کون ایسا مسلمان ہے جو عزت اور محبت کی نگاہوں سے نہیں دیکھے گا، ایسا شخص تو وہی ہوسکتاہے جس کو نہ اسلام سے تعلق ہو اور نہ رسول اللہ ﷺ سے علاقہ ہو، نہ خدا تعالیٰ سے سروکار، شقاوت ازلی اس کے سر پر سوار ہو، شیطان کے ہاتھوں میں اس کی زمام اختیار ہو، ایسا شخص اگر ان دینی مدارس کو حقارت کی نظر سے دیکھے ان کا پکا دشمن اور مخالف ہو تو کچھ تعجب انگیز نہیں ورنہ ان دینی مدارس کے وجود سے جس محلے میں ہو، ان کی عزت جس شہر میں ہوں، اس کی عزت بلکہ جس ملک میں ہوں، اس کی عنداللہ وعندالناس عزت وحرمت ہے، کیونکہ گویارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک سچاخلیفہ اور جانشین خود آپ کے دین کی تبلیغ وتعلیم کررہاہے تو جس کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ذرا بھی سچی محبت ہوگی اس کو بالضرور ان مدارس کے ساتھ محبت اور دلچسپی ہوگی اور مدارس کے طلباء اورعلماء کے ساتھ ارتباط اور الفت ہوگی اور جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم سے جھوٹی محبت اور دلچسپی ہوگی اور مدارس کے طلباء اور علماء کے ساتھ ارتباط اور الفت نہ ہوگی اور جس کورسول اللہ ﷺ کے ساتھ جھوٹی محبت کا دعویٰ ہوگا اس کو بے شبہ مدرسہ اور مدرسہ کے طلباء سے دلچسپی نہ ہوگی بلکہ تنفر ہوگا پس ہر شخص جس کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی محبت کا اندازہ کرنا مدنظر ہو وہ ان مدارس کے ساتھ اپنی محبت کا اندازہ کرکے دیکھ لے جس قدر ان مدارس کے ساتھ علاقہ محبت کا ہوگا اسی قدر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ علاقہ محبت کاہوگا، اس لئے کہ یہ مدارس گویا رسول اللہ ﷺ کے نائب ہیں، اور نائب اور منیب کا عقلاء کے نزدیک ایک ہی حکم ہوتاہے۔‘‘ (تاریخ مظاہر اول ۸۴)حضرت گنگوہی کا سرپرستی سے استعفا : حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتوی م۱۳۰۲ھ کے انتقال کے بعد مدرسہ کے انتظام کے لئے ایک کمیٹی تشکیل ہوئی تھی جس