حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں ملی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک اور یگانہ خصوصیت سے نوازا ، وہ یہ کہ آپ کے اور آپ کے چند ممتاز خلفاء وتربیت یافتہ حضرات کے ذریعہ نہ صرف سلسلہ چشتیہ صابریہ کا چراغ روشن رکھا بلکہ اس وقت سلوک وتصوف کی جو کچھ رونق اور گرم بازاری نظر آرہی ہے وہ زیادہ تر آپ ہی کے دوچیدہ اور برگزیدہ خلفا کی مختلف الجہز کوششوں اور مقبولیت کانتیجہ ہے، میری مراد حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی ؒ ، اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب ؒ سے ہے، اول الذکر نے اپنی عہد آفریں اور عالمگیر دعوتی اور تبلیغی تحریک وجدوجہد سے جومراکش سے لے کر انڈونیشیا اور ایشیا وافریقہ سے لے کر یورپ وامریکہ تک پہنچ چکی ہے اور آخر الذکر نے اپنی تصنیفات ، درس حدیث اور بیعت وارشاد کے ذریعہ اس طریق اور سلسلہ کے فیوض اس طرح عام کئے ہیں کہ اس سے پہلے اس کی نظیر آسانی سے تلاش نہیں کی جاسکتی۔ ضرورت تھی کہ حضرت کی سوانح حیات جدید طرز کے مطابق اس طرح مرتب کی جاتی کہ آپ کا ماحول،عہد ،روحانی ،تعلیمی، فکری اور خاندانی سلسلہ تاریخی حوالوں اور دستاویزی ثبوت کے ساتھ روشنی میں آجاتا،آپ کا ذہنی، فکری، علمی وروحانی ارتقاء، اسکے اسباب ومحرکات، اور آپ کے کاموں کا تاریخی پس منظر سامنے آتا، آپ کی تربیت اور مدارج کمال تک پہونچنے میں جن جن ہستیوں ، خاندانوں اور مکاتب خیال کاحصہ رہا ہے وہ سب سامنے آتے، آپ کا اپنے معاصرین کے ساتھ اور معاصرین کاآپ کے ساتھ تعلق واضح ہوتا اور لوگوں کو معلوم ہوتا کہ آپ کے مشائخ اور آپ کے نامور معاصرین کی آپ کے متعلق کیا رائے تھی؟ اور وہ آپ کو کس نظر سے دیکھتے تھے، آپ کی تصنیفات پر تبصرہ اور ان کامفصل تعارف ہوتا آپ کے ممتاز تربیت یافتہ حضرات وخلفاء کاضروری تعارف ہوتا اورآپ کے مختلف النوع علمی، دینی، اصلاحی، تربیتی کوششوں اور ان کے نتائج کا جائزہ لیاجاتا غرض یہ کہ آپ کی سوانح اس انداز سے مرتب کی جاتی کہ آپ محض ایک شیخ طریقت ہی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک بلندپایہ عالم ، مصنف ،مصلح ،مربی باطنی اور مبلغ وداعی کی حیثیت سے سامنے آتے اور ایک ہی ذوق کے نہیں، ہرذوق کے آدمی کو اس سوانح میں عبرت وموعظت اور اصلاح وتربیت کاسامان ملتا۔ خواہرزادہ عزیز مولوی محمدثانی حسنی سلمہ کی یہ بڑی خوش نصیبی ہے کہ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ نے یہ نازک اور اہم خدمت ان کے سپرد کی، ان کو خود عرصہ سے اس کا شو ق تھا، کہ وہ یہ تذکرہ مرتب کریں، انہوں نے اس سے پہلے ۷۸۳ صفحات میں داعی الی اللہ مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی ؒ کی سوانح مرتب کی، جو بڑی مقبول ہوئی، اس کے کئی ایڈیشن نکلے، اس کے ذریعہ سے ایک اہم اور بیش قیمت تاریخ جو نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کے لئے باعث فخر بلکہ اس عہد