حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عزیزالرحمن عزیز بھاولپوری بھی تھے جنہوں نے آپ کے حالات تحریر کئے ہیں، وہ آپ کے درس کے متعلق تحریر کرتے ہیں: ’’حضرت کے درس میں جس طرح منطق وکلام علوم عقلیہ کی تعلیم ہوتی تھی اسی طرح فقہ اورحدیث اور تفسیر کا درس مکمل ہوتاتھا، نصاب تعلیم دینی وہی نظامی نصاب تھا جو ان دنوں تمام ہندوستان کے اعلیٰ مدارس میں رائج تھا حضرت جس شفقت اور محبت کے ساتھ طلباء کی تعلیم میں مصروف ہوتے تھے اس کا اندازہ کچھ وہی خوش نصیب کرسکتے ہیں جن کو اس درس میں شمولیت کا شرف حاصل رہ چکاہو۔‘‘(تذکرۃ الخلیل ۱۱۰) حضرت مولانا نے اپنے قیام کے دوران طلباء کو تعلیم دینے میں جس حسن معاملہ سے کام لیا اور طلباء کو آپ سے جس درجہ تعلق رہا اس کے متعلق مولوی صاحب موصوف لکھتے ہیں: ’’میں دیکھتا تھا کہ پروانوںکی طرح طلباء حضرت کے شیدا تھے بعض طلباء تو تمام وقت تعلیم میں، درس میں موجود رہتے اور جو سبق پڑھایا جاتا وہ اس میں شامل ہوجاتے ، ان کا منشا صرف آپ کے فیض صحبت اور تربیت عام حاصل کرنے کا ہوتا تھا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۱۱۱) حضرت مولانا کا علمی تبحر اور طریقہ تدریس کے متعلق مولوی صاحب موصوف لکھتے ہیں: ’’زیادہ تر حضرت کا وقت درس حدیث میں صرف ہوتاتھا اور حضرت کو ہزاروں حدیثیں اور بالعموم صحاح کی احادیث سندات تک برزبان یاد تھیں اور کسی ایک مسئلے کے متعلق حضرت اپنے حافظے سے تمام علمی اور مذہبی معلومات کو یکجا بیان فرمادیتے تھے اور یہ ایک خاص ملکہ تھا جو حضرت علیہ الرحمۃ کو قدرت نے عطا فرمایا تھا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۱۱۱) آپ کے تقدس ،عظمت ،خوش خلقی اور عمومی محبوبیت ومقبولیت کے متعلق اپنا مشاہدہ تحریر کرتے ہیں: ’’عوام پر حضرت کے تقدس کا اتنا اثر ہوتا تھا کہ بے ساختہ تعظیم کے لئے مجبور ہوجاتے تھے، مجھے کئی دفعہ حضرت کے ساتھ بازار میں سے گزرنے کا اتفاق ہوا تھا مسلمانوں کا کیا ذکر ہے؟ ہندو دوکانداران بھی حضرت کی تعظیم کے لئے سروقد کھڑے ہوکر سلام کرتے تھے، جس مسجد میں حضرت کا قیام رہتا اس محلے کے پیرو برنا چھوٹے بڑے سب پابند صوم وصلوٰۃ ہوجاتے اور چھوٹے چھوٹے روز مرہ کی عبادات اور معاملات کے مسائل محلے کے ناخواندہ لوگ بھی صحت کے ساتھ بتلا سکتے تھے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۱۱۸)ہنگامہ خیز دور : اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا کو بھاولپور کے دس سالہ قیام میں جو مقبولیت اور محبوبیت عطا فرمائی تھی اس کا ایک نمونہ سطور بالا میں آپ پڑھ چکے ہیں، اس محبوبیت اور مقبولیت کی وجہ سے نیز آپ کے احقاق حق اور صاف گوئی کی وجہ سے بھاولپور کے اہل بدعت کے دلوں میں بغض وحسد کی آگ بھڑک اٹھی اور انہوں نے افترا پردازی ، فتنہ انگیزی، الزماات