حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
محمد احسن اور مولانا محمد منیر نانوتوی نے ڈالی تھی اور بلاخیز طوفان کا مقابلہ کیاتھا اس کو آپ نے اپنے ہاتھوں میں لیا اور باوجود شدید مخالفتوں کے آپ اپنا یہ کام کرتے رہے۔ ؎ ہوا ہے گو تند وتیز لیکن چراغ اپنا جلارہاہے وہ مرد درویش جس کو حق نے دئیے ہیں انداز خسروانہ مولانا درس وتدریس کے ساتھ ساتھ کتابوں کامطالعہ بھی فرماتے اور اپنے وعظ وارشاد سے دوسروں کو مستفید بھی فرماتے اور تصنیف وتالیف کامشغلہ بھی جاری رکھتے، مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی آپ کے معمولات اس طرح تحریر کرتے ہیں: ’’بریلی تشریف لاکر بھی مغرب سے عشاء تک حضرت کتاب دیکھتے، اور بعد نماز عشاء کھانا تناول فرماکرتھوڑی دیر پھر مطالعہ میں مشغول رہتے اس کے بعد سوجاتے اور اخیر شب میں اٹھ کر تہجد پڑھا کرتے نماز فجر کے بعد تلاوت اور وظائف میں مشغول رہتے اور اشراق کے بعد مدرسہ میں تشریف لے آتے تھے گرمی میں دس بجے تک اور موسم سرما میں گیارہ بجے تک صبح کو دورئہ حدیث اوربعد ظہر سے عصر تک فقہ کا درس دیتے تھے، دوپہر میں کھانے سے فارغ ہوکر کچھ دیر قیلولہ فرمایا کرتے اور اس درمیان میں جو وقت ملتا اس میں صاحبزادہ محمد ابراہیم کو پیار وشفقت کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۱۴۱)طلباء کی استعداد سے مولانا کاعدم اطمینان : حضرت مولانا کے مصباح العلوم میں جانے سے مدرسہ کو بہت فائدہ پہنچا، طلباء کی تعداد بڑھی، تعلیم کامعیار بلند ہوا، طلبا کو جتنا حضرت مولانا کے طریقہ درس اور طریقہ تعلیم سے فائدہ پہنچا وہ کسی استاذ سے نہیں پہنچا تھا، آپ صرف مدرس نہ تھے طلباء کے مربی اور شفیق استاذ تھے افہام وتفہیم سے کام لیتے اور حکمت وموعظت سے پیش آتے لیکن آپ کو جن ذہین وذکی اور استعداد کامل رکھنے والے طلباء کی ضرورت تھی وہ آپ کو حاصل نہ ہوسکے، طلباء میں وہ روح باقی نہیں رہی تھی جو پہلے کے طلباء میں ہوا کرتی تھی ، آپ اس صورتحال سے پریشان تھے اور دینی علوم کے طلباء کی ذہنی ،علمی پستی سے آپ متفکر رہا کرتے تھے، آپ نے اس صورت حال کااظہار اس مکتوب میں اپنے شیخ اور مرشد حضرت گنگوہی کی خدمت میں کیا حضرت والا نے اس مکتوب کا جو جواب عنایت فرمایا اس میں آپ نے تحریر فرمایا: ’’طلباء کی شکایت بجا ہے مگر اس زمانہ میں ایسے ہی طلباء ہیں، زمانہ با تو نہ ساز د تو باز مانہ بساز صبر کرکے پڑھائے جاؤ، اور ترک میں جلدی نہ کرو، جب یاس ترقی سے ہوجاوے اس وقت جو کچھ مقدر ہے ہوجاوے گا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۱۵۲)ٓاہل بدعت کا آپ کے خلاف ہنگامہ :