حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مگر ایسے مبہوت کہ گویا آپ کا بال بال چشم گریاں بنا ہوا ہے، حضرت کا جنازہ سہ دری میں تھا اور آپ خانقاہ میں ایک سکوت طویل کے ساتھ ایک طرف بیٹھے ہوئے چپکے چپکے تلاوت قرآن میں مشغول تھے اور غلبہ حزن میں جب کہ کوئی آنسو آنکھ سہار نہ سکتی تو کنارہ چار سے آپ پوچھ لیتے تھے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۸۶)ایک بدعتی کی شرارت اور حضرت مولانا کی فراست : حضرت گنگوہی ؒ کے وصال پر پوری فضا مغموم تھی، ہوش وخرد کھوئے ہوئے اور ذہن ودماغ تھکے ہوئے تھے، ہر کس وناکس کی زبان حال گویا تھی۔ ؎ ہمیں تو باغ تجھ بن خانۂ ماتم نظر آیا ادھر گلی پھاڑتے تھے جیب، روتی تھی ادھر شبنم غم میں ڈوبے ہوئے ایسے ماحول میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس سے ایک شقی القلب کی شرارت اور حضرت مولانا کی فراست ظاہر ہوئی۔ ’’حضرت گنگوہی قد س سرہ کے وصال پر مخلوق پریشان تھی، جمعہ کا وقت تھا آپ نے ایک شخص کو دیکھا کہ آہ وزاری کررہاہے اور حضرت کا عاشق دلدادہ بنا ہوا پکار رہاہے ، ہائے مجھے حضرت کی زیارت تو کروادو لوگوں کو نماز پڑھنا مشکل ہوگیا مگر اس کو حضرت کاجاں نثار محب سمجھتے تھے، اس لئے کچھ نہ بولے، حضرت نے مسجد میں جاکر مولانا محمود حسن صاحب سے کچھ آہستہ آہستہ باتیں کیں اور باہر تشریف لاکر غصے کے ساتھ اس کو ڈانٹا کہ میںجانتاہوں کہ تجھے بہت صدمہ ہے، میں جانتاہوں کہ تو حضرت کا عاشق ہے،پھر فرمایا اس کو مسجد سے نکالدو یہ نہ حضرت کا خادم ہے نہ اس کو حضرت کی محبت ہے، حاضرین کو تعجب تھا کہ ایسے عاشق بیتاب کے متعلق کیا فرمارہے ہیں مگر ؎ اے بسا ابلیس آوم روئے است بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا کہ کوئی بدعتی تھا جو ہاتھ میں اس قسم کا پاؤڈر لگاکر آیا تھا کہ چہرے پر ملنے سے سیاہ ہوجاوے، حضرت گنگوہی کی کرامت تھی اور حضرت کی فراست کہ وہ روسیاہی کی چال نہ چل سکا اور مسجد سے نکال دیا گیا۔‘‘حضرت گنگوہی کے بعد آپ کا حال اور اظہار تاثر : حضرت گنگوہی ؒ کے وصال کے بعد آپ دل شکستہ اور اداس رہنے لگے اس لئے کہ زندگی میں اتنا بڑا غم نہ دیکھا تھا، ساری زندگی اپنے شیخ ومربی کے حکم اور اشارے پر گزاردی، ان کے عشق ومحبت میں سرشار رہے ان کے سایۂ عاطفت کو اپنے لئے سراپا رحمت سمجھتے تھے، آپ نے حضرت کے انتقال پر بڑے درد واثر کے ساتھ ایک صاحب کو تحریر فرمایا: ’’حضرت ؒ کی رحلت نے کمر توڑدی، میں تودل سے کہتا ہوں ، سنے کون ہائے صدائے دل، ملے کس سے آہ شفائے دل وہ جو بیچتے تھے