حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کیوں چھوڑی اور مظاہرالعلوم سہارنپور میں تعلیم کوکیوں ترجیح دی، یہ آپ ہی کے الفاظ میں پڑھئے: ’’دیوبند میں آب وہوا موافق نہیں آئی تو مظاہرالعلوم میں آکر داخل ہوگیا مولانا محمد مظہر صاحب ؒ کی برکت وشفقت تھی کہ مولانا نے فرمایا کہ شرح جامی کاکوئی سبق مدرسہ میں نہیں اس لئے مختصرالمعانی میں داخل ہوجاؤ۔‘‘ (مقدمہ اکمال الیشم ۱۲۵) حضرت مولانا مظاہرالعلوم کے قائم ہونے کے پہلے ہی سال مختصر المعانی کے سبق میں شریک ہوئے اس سال مدرسہ میں صرف اڑسٹھ طلباء تھے جن میں اٹھارہ طلباء عربی کے درجات میں تھے بقیہ دوسرے درجات میں جب سالانہ امتحان ہوا تو کامیاب طلبہ کو انعام ملا، ان انعام یافتہ طلباء میں حضرت مولانا بھی تھے، آپ کو انعام میں اصول الشاشی ملی۔آپ کے اساتذہ : آپ جب مظاہرالعلوم میں داخل ہوئے تو پہلے ہی سال آپ کو مولانا سعادت علی صاحب فقیہ سہارنپوری، مولانا سخاوت علی صاحب انبہٹوی (جنہوں نے آپ کو وطن میں بھی پڑھایا تھا) حضرت مولانا محمد مظہرصاحب نانوتوی اور مولانا سعادت حسین صاحب بہاری نے آپ کو انتہائی شفقت اورمحبت کے ساتھ پڑھایا اور آپ کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا۔تحصیل علم حدیث : دوسرے سال ہی آپ نے حدیث شریف شروع کردی، حدیث میں آپ کے استاذ حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتوی تھے۔ آپ نے سب سے پہلے اپنے مشفق استاذ سے مشکوٰۃ شریف پڑھی یہ ۱۲۸۴ھ تھا اس وقت آپ کی عمر پندرہ سال تھی، آپ نے حدیث کی تقریبا پوری تعلیم حضرت مولانا محمد مظہر صاحب ہی سے حاصل کی اور باقی علوم وفنون (جیسے منطق، فلسفہ، ہیئت، ریاضی، فقہ وتفسیر) دوسرے استاذوں سے پڑھے، جس سال آپ نے مشکوٰۃ شریف پڑھی اس سال آپ کے ساتھیوں میں مولانا عنایت الٰہی صاحب بھی تھے جو بعد میں اسی مدرسہ کے ناظم اور مہتمم بنے اس سال حضرت مولانا سالانہ امتحان میں اول نمبر سے پاس ہوئے، آپ کو انعام میں مختصر المعانی اور شرح عقائد ملی۔ اس سال مدرسہ میں ۷۶ طلباء تھے جن میں ۲۵ طلباء عربی کو انعام ملا۔دورئہ حدیث : مدرسہ کے تیسرے سال یعنی ۸۶،۸۵ ھ میں پہلی بار دورئہ حدیث ہوا اور بخاری شریف پڑھائی گئی، حضرت مولانا نے بھی اسی سال دورئہ حدیث پڑھا اور بخاری شریف اور ہدایہ اخیرین کا امتحان دیا اور جامع ترمذی انعام میں پائی، یہ سال مدرسہ کے لئے اور طلباء کے لئے بہت سخت تھا، قحط عام ہورہاتھا، طلباء کا یہ حال ہورہاتھا کہ فاقے کرکے اسباق پڑھتے تھے لیکن