حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
الخلیل:۴۴۹) حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نے عرض کیا: ’’حضرت کے طفیل میں کیا کیا کچھ کھایا اورکھاتے ہیں‘‘ جواب میں ارشاد فرمایا: ’’اب طفیل میں کھاتے ہو چند روز بعد انشاء اﷲ مستقل کھاؤ گے کہ لوگ خود پیش کریں گے۔‘‘ مولانا عاشق الٰہی صاحب نے عرض کیا: ’’حضرت مبارک جگہ تشریف لے جارہے ہیں اس کی تو مسرت ہے مگر اپنی بے کسی کا قلق ہے کہ مولانا رائپوری حیات تھے تو حضرت کی مفارقت کا صدمہ وہاں حاضر ہو کر کم ہوجاتا اور طبیعت جب گھبراجاتی تو رائے پور جاکر سکون مل جاتا تھا اب جدھر نظر اٹھاتا ہوں کوئی اپنا نظر نہیں آتا اتنا کہ کر میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے اور ہچکی بندھ گئی حضرت بھی باچشم نم ہوئے اور ذرا سکوت کے بعد فرمایا اﷲ خلیفنی علیک انشاء اﷲ تمہیں کہیں جانے کی ضرورت نہ ہوگی۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۴۴۹)شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کی رفاقت و ہمر کابی : اس زمانہ میں آپ کے حکم پر حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب بذل المجہود کا کام کر رہے تھے اور لکھتے تھے اس لئے جب آپ تشریف لے جانے لگے تو حضرت شیخ کو اس خیال سے کہ مدرسہ کی بعض ذمہ داریاں ان کے سپرد کی گئی ہیں جن کی وجہ سے اس مبارک سفر میں ہمرکابی مشکل ہے،صدمہ ہوا،ان کی دلی خواہش تھی کہ اس سفر میں ہمرکابی نصیب ہو اور خدمت کا موقع ملے اس لئے کوشش یہ کی کہ آپ کے ساتھ کسی طرح جانے کا موقع مل جائے اس کوشش اور اس کے نتیجہ میں حضرت مولانا کی گفتگو اور اس گفتگو کے بعد معیت کا شرف جس طرح حاصل ہوا اس کی تفصیل حضرت شیخ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: ’’ ۴۴ھ میں میرا حج کا ارادہ بالکل نہیں تھا کہ شادی ہوچکی تھی قرضہ بدستور تھا ،حدیث کے اسباق شروع ہوچکے تھے (لیکن)شعبان ۴۴ھ میں حضرت قدس سرہٗ نے اپنی غیبت کے لیے جو انتظامت لکھوائے اس میں اس سیہ کار کو صدر مدرس بنایا اور حضرت مولانا عبدالطیف صاحب کو ناظم مدرسہ وہ تحریر تھی تو بڑے راز میں حضرت مہتمم صاحب (اسکے)لکھنے والے تھے لیکن اس ناکارہ سے زیادہ راز نہیں تھا ،اسلئے کہ وہ کاغذات اس ڈاک کے تھیلے میں رہتے تھے جو میرے پاس رہتا تھا اور جب میں نے یہ پڑھا کہ اس سیہ کار کا نام مدرس اول میں لکھا گیا تو میرا دماغ چکرا گیا اس لئے کہ میری نگاہ میں درس اول کے فرائض بہت سخت تھے میں نے حضرت قدس سرہٗ سے جب وہ اوپر پیشاب کیلئے تشریف لے جارہے تھے اور یہ ناکارہ استنجا کا لوٹا لے کر ریاکاری سے پیچھے پیچھے گیا اور جب حضرت استنجا سکھلارہے تھے تو میں نے بہت سوکھا سا منہ بنا کر یوں عرض کیا کہ حضرت بذل کا کیا ہوگا حضرت نے بہت قلق کے ساتھ فرمایا۔کچھ