حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی روانگی تک۔۔۔۔۔۔اس کی ترقی کے لئے آپ نے مسلسل کوشش کی تھی)کی وجہ سے حضرت شیخ کو بادل ناخواستہ ورانہ کیا مولانا ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں: ’’حضرت سہارنپوری مدینہ طیبہ میں مسلسل قیام کے اردہ سے گئے تھے آپ کا واپسی کا کوئی ارادہ نہ تھا رفقائے خاص کو اس کا علم تھا اور کہتے تھے کہ آپ تو یہاں بقیع میں آسودہ خاک ہونے کے لئے آئے ہیں مدرسہ کے شیرازہ کو مجتمع رکھنے اور اس دور پر فتن کے آفات و شرور سے اس کو الگ رکھنے کے لئے نیز ارشاد و تربیت کے اس سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے جو حضرت کی ذات سے وابستہ تھا شیخ کی واپسی ہندوستان ہی کو مناسب تھی۔‘‘(سوانح مولانا محمد یوسف ۹۶۔۹۷) اس مقصد کی خاطر آپ نے حضرت شیخ کو اولاً شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز کیا اور پھر خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا اور اس کے لئے بڑا اہتمام فرمایا چار دن سلسلوں میں بیعت و ارشاد کی عام اجازت عطا فرمائی اپنے سر سے عمامہ اتارکر مولانا سید احمد صاحب فیض آبادی کو دیا کہ شیخ کر سر پر باندھ دیں جس وقت وہ عمامہ شیخ کے سر پر رکھا گیا شیخ پر ایسا گریہ اور رقت طاری ہوئی کہ چیخیں نکل گئیں،حضرت بھی آبدیدہ ہوگئے۔ اس رقت انگیز منظر کا اثر شرکاء مجلس پر بھی بہت پڑا اور سب ہی آبدیدہ ہوگئے ۱۶ِذیقعدہ ۴۵ھ کو مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث اور مجاز بیعت اور جانشین بن کے حضرت مولانا سے رخصت ہوئے رخصتی کا وہ منظر بھی عجیب تھا اور رخصت ہونے والے اور رخصت کرنے والے دونوں متاثر تھے۔سوز و گداز اور موت کا استحصار و یقین : حضرت مولانا پر آخری ایام زندگی میں سوز و گدازرقت و لنیت ،توجہ الی اﷲ ،انقطاع عن الدنیا پوری طرح طاری ہوگیا تھا لقاء رب کا شوق بڑھ گیا تھا اور موت کا استحضار ہمہ وقت رہتا تھا مولانا عاشق الٰہی لکھتے ہیں: ’’آخر زمانہ میں آپ کا اندرونی سوزوگداز زیادہ بڑھ گیا تھا کہ ضبط نہ فرماسکتے اور بات بات پر رقت و گریا طاری ہوجاتا تھا بزرگوں کی عمروں کا ایک بارذکر ہورہا تھا فرمانے لگے دو سال زندہ رہا تو اپنے شیخ کی عمر کو پہنچ جاؤں گا اتنا کہ کر رو دئیے اور فرمایا سب چلے گئے ہیں میں ہی رہ گیا ایک مرتبہ کسی نے عرض کیا کہ حضرت ہندوستان کا کب تک ارادہ ہے ؟ تو چشم پر آب ہوگئے اور فرمایا اب تو بقیع کا ارادہ ہے ،آخرت کا قیامت کا یا بزرگوں کا جس وقت بھی ذکر آتا تو آبدیدہ ہوجاتے اور آوازمیں تغیر آجاتا تھا ۔ (تذکرۃ الخلیل:۴۵۸) دوسری جگہ حضرت مولانا کی محنت شاقہ ،گریہ وزاری کے متعلق لکھتے ہیں: ’’تعلقات سے یکسوئی ہونے لگی خلوت و تنہائی سے انس بڑھ گیا تلاوت کلام اﷲ کی رغبت اتنی ہوئی کہ دیکھنے والے ترس کھاتے اور عرض کرتے کہ اس ضعیفی میں تعلق ابوداؤد کی ناقابل برداشت محنت سے دماغ تھک گیا ہے اب اس پر رحم فرمائیے مگر آپ جواب دیتے کہ دماغ سے کام ہی لینا کیا باقی ہے جو رعایت کروں اچھا ہے جس نے دیا ہے اس کے کام آؤں۔