حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ظلمت دور ہو اور سنت کا نور چمکے، آپ بریلی میں دوسال رہے لیکن برسوں کاکام کیا، حافظ محمدجعفرخاں کے گھروالوں کو آپ سے ایسا قلبی تعلق پیدا ہوگیا تھا کہ حافظ صاحب کے دو پوتے مولوی محمد فاروق اور مولوی محمد اسحاق نے آپ کی خدمت میں رہ کر سہارنپور اور دیوبند سے فراغت کی اور آپ سے بیعت ہوئے ایسی حالت میں آپ کی خدمت میں پہنچے مرض کی شدید تکلیف اٹھاکر اور باوجود حضرت مولانا اور اپنے گھر والوں کے اصرار کے گھر جانا گورا نہ کیا اور بڑے قلق سے کہا، میری آرزو تویہ تھی کہ میری موت یہیں ہو اور حضرت میرے جنازے کی نماز پڑھائیں۔ نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے مرض بڑھتا گیا اور وہ کمزور ہوتے گئے جب وہ شدید طور پر بیمار ہوگئے تو ان کے بھائی کو بلایاگیا کہ ان کو گھر لے جائیں، بھائی آئے اور لے جانے پر اصرار کیا مولوی صاحب موصوف نے جب دیکھا کہ گھر جاناہی پڑے گا تو خدمت میں عرض کیا کہ دو دن اور قدموں کے نیچے رہنے کی اجازت دی جائے، حضرت مولانا نے آپ کی بے تابی اور بے چینی دیکھی تو گھر جانے پر اصرار نہیں فرمایا، دو دن بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ ان کی آرزو پوری ہوگئی اور اپنے گھر جانے کے وقت موعود سے پہلے پہلے خدا کے گھر جانے کا وقت موعود آگیا۔ جان ہی دیدی جگر نے آج پائے یار پر عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیابریلی سے دیوبند : بریلی میں دوسال گزرے تھے یعنی ۱۳۰۶ھ سے ۱۳۰۸ھ تک رہے تھے کہ دارالعلوم ویوبند میں طلبی ہوئی اور آپ کے شیخ ومرشد حضرت گنگوہی نے آپ کے لئے دارالعلوم میں قیام تجویزفرمایا اور آپ کو لکھا: ’’گوتنخواہ میں دس روپیہ کاتنزل ہے مگر تمہاری علمی ترقی کالحاظ کرکے اس کو پسند کرتاہوں۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۱۴۶) حضرت گنگوہی کے بلانے اور دیوبند کے قیام کو تجویز کرنے سے حضرت مولانا کو بہت خوشی ہوئی، آپ نے حافظ محمد جعفرخاں صاحب کو دیوبند جانے کی اطلاع کی، حافظ صاحب کو آپ کے بریلی سے تشریف لے جانے سے بہت قلق ہوا اور انہوں نے روکنے کی بہت کوشش کی مگر آپ حضرت گنگوہی کے حکم کو ٹال نہیں سکتے تھے، ادھر حافظ صاحب بھی خاموش ہوگئے کہ حضرت گنگوہی کا یہ فیصلہ آخری فیصلہ ہے، حافظ صاحب نے حضرت مولانا سے یہ ضرور عرض کیا اگر آپ کا جانا ضروری ہے تو اپنی جگہ کسی مستند عالم کو بٹھاکر تشریف لے جائیں، حضرت مولانا نے اس کو منظور فرمایا اور ایک