حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے کسی کو خبر آخر وقت تک نہ ہوئی، کھانے سے فراغت کے بعد جس کا سارا انتظام حضرت مولانا محمود حسن صاحب کے ہاتھ میں تھا اور خود بنفس نفیس کمر میں پٹہ باندھ کر کھانا نکالتے اور مہمانوں کو کھلاتے جارہے تھے، جب سارے مہمان کھانا کھاچکے تو حضر ت مولانا محمود حسن صاحب نے کسی کو یہ کہہ کر بھیجا کہ چھتہ والی مسجد میں داخل ہوکر آواز لگائے کہ اللہ کے فضل سے فراغت ہوگئی، سارے مجمع نے کھانا کھالیا، جب بھیجے جانے والے آدمی نے چھتہ والی مسجد میں جاکے دیکھا تو کوئی بھی نظر نہیں آیا مگر اس نے حضرت مولانا محمود حسن صاحب کے حکم پر بے دیکھے یہ اطلاع بآواز بلند دیدی تو اندر سے یہ تینوں حضرات نکلے اور ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔حجاج کا مبارک قافلہ اور آپ کی ہمرکابی : ۱۳۲۸ھ میں مدرسہ مظاہر علوم کے مدرسین ومتعلقین کا ایک بڑا قافلہ حج کو روانہ ہوا، جس میں مدرسہ کے سرپرست حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب رائپوری اور ان کے فرزند مولوی عبدالرشید صاحب نیز مدرسہ کے کئی مدرسین شریک تھے، حضرت مولانا کو بھی حج میں جانے کا شوق پیدا ہو، اور بلاکسی پہلے سے ارادہ اور تیاری کے حج کا سفراختیار فرمایا۔ اس سفر حج کے متعلق مولانا عاشق الٰہی صاحب لکھتے ہیں: ’’۱۳۲۸ھ میں جب مولانا رائپوری کو آپ نے دہلی تک مشایعت فرماکر حجاز روانہ کیا تو شوق حاضری حرمین کا پھر غلبہ ہوا اور شاہ زاہد حسن صاحب رئیس بہٹ نے آپ سے خواہش کی کہ ساتھ تشریف لے چلیں تو آپ نے منظور فرمالیا ، اور مولانا محمد یحیٰ صاحب کاندھلوی کو (جو جمادی الاول سے حسب معمول اسباق دورہ کی تکمیل کے لئے آئے ہوئے تھے) اپنا قائم مقام بناکر اہلیہ کو مکان پر چھوڑکر وسط ذیقعدہ میں بمبئی روانہ ہوئے، ۶ ذی الحجہ کو آپ مکہ مکرمہ پہنچے اور ۱۰ محرم کو براہ رابغ مدینہ منورہ حاضر ہوئے، ۲۲ دن قیام فرماکر وطن کو مراجعت اور آخر صفر میں سہارنپور تشریف لے آئے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۳۶۵) آپ نے یہ سفر جس شوق وذوق کے ساتھ کیا وہ آپ ہی کاحصہ تھا۔ کون جانے کہ آپ کااس راہ میں کیاحال رہا اور کس عالم کیف ومستی سے آپ گذرے۔ وفورشوق میں اک اک قدم میرا قیامت تھا خدا معلوم کیونکر جلوہ زار حسن تک پہنچا آپ کا یہ سفر ۵ ماہ کا تھا اس پوری مدت میں مولانا محمدیحیی صاحب کو جو تنخواہ ملتی رہی وہ خود نہیں لیتے تھے بلکہ حضرت مولانا کی اہلیہ محترمہ کی خدمت میں حاضرہوکر پیش کردیا کرتے تھے۔ حضرت رائپوری کے ہمراہ اس سفرمیں ان کے صاحبزادے مولوی عبدالرشید بھی تھے اور بہت سے ایسے اہل تعلق بھی جن کاخرچ ختم ہوگیاتھا اور وہ جلد واپسی پرزور دے رہے تھے، حضرت رائپوری کے صاحبزادے علیل تھے، حضرت رائپوری میں تواضع،