حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
رکھ دیا گویا کوئی چیز ہی نہیں،اور استغناء کے ساتھ فرمایا کہ میاں تم تو پیر زادے ہو،خود پیرہو تمہیں کسی کے مرید ہونے کی کیاضرورت مگر واہ رے خلیل کی قابلیت کہ یہ سن کرآنکھوں میں آنسو بھرلائے اور عرض کیا: ’’کہ حضرت کیسی پیر زادگی میں تو اس دربار کے کتوں کے برابر بھی نہیں بیعت کا حاجت مند ہی نہیں بلکہ سرتاپا احتیاج ہوں اور چھاتی سے لگائیے، یا دھکے دیجئے میں توحضرت کا غلام بن چکا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل :۵۰) یہ الفاظ آپ کی زبان سے نکلنے تھے اور حضرت کے چہرے پر انبساط کی لہر دوڑنی تھی کہ آپ نے فرمایابس بہت اچھا، اوراس کے بعد بیعت کرلیا۔ دوسرا واقعہ جو حضرت مولانا نے خود ذکر کیا ہے، وہ حسب ذیل ہے۔ حضرت مولانا ارشاد فرماتے ہیں: ’’غالبا ۱۲۸۸ھ یا ۱۲۸۹ھ میں خیال بیعت پیدا ہوا، اتفاقا انہیں ایام میں حضرت مولوی محمد قاسم نانوتوی رڑکی تشریف لائے اور حسب استدعائے بندہ واپسی میں منگلور قیام فرمایا، بندے نے شب کو تنہائی میں عرض کیا کہ المستشار مؤتمن بطور مشورہ عرض ہے کہ مجھ کو خیال بیعت ہے اور ہمارے نواح میں چند بزرگ ہیں، آپ اور مولانا رشید احمد صاحب اور مولانا شیخ محمد صاحب اور قاضی محمد اسماعیل صاحب ، میں نہیں جانتا کہ میرے لئے کیا بہتر ہے؟ اگر آپ کے نزدیک میرے حق میں آپ کے خدام کے سلسلے میں داخل ہونا بہتر ہو تو مجھ کو اپنی خدمت میں قبول فرمائیے، ورنہ جو امر میرے لئے بہتر ہو اس کو فرمائیے، اس کے جواب میں حضرت مولانا ؒ نے طویل تقریر فرمائی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ مولانا رشید احمد صاحب سے اس وقت کوئی بہتر نہیںہے، میں نے عرض کیا وہ تو بیعت کرنے سے نہایت کارہ ہیں، آپ ہی اگر سفارش فرمائیں گے تو یہ امر طے ہوگا، فرمایا اچھا جب میں گنگوہ آؤں اس وقت چلے آنا، چنانچہ میں متلاشی رہا، چند روز کے بعد مجھ کو حضرت مولانا کے گنگوہ جانے کی خبر معلوم ہوئی، میں بھی فورا پہنچا اور عرض کیا کہ ’’الکریم إذا وعد وفیٰ‘‘ تبسم فرمایا کہ بہتر ہے، پھر صبح کو بعد فراغت حضرت سے باتیں کرکے مجھ کو بلایا، میں حجرے میں حاضر ہوا، مولوی صاحب بیٹھے ہوئے تھے، سلام کرکے بیٹھ گیا، حضرت مولوی محمد قاسم ؒ تو ساکت رہے، حضرت ؒ نے ذرا تبسم کے ساتھ فرمایا کہ مجھ سے تو یہ جولا ہے وغیرہ مرید ہوجاتے ہیں اور تم خود پیر زادہ ہو اور چناں ہو چنیں ہو، تم مجھ سے کیوں بیعت ہوتے ہو؟ کچھ تو مجھ پر حاضر ہوتے ہی رعب وہیبت کے آثار تھے اس کلام نے اور بھی رہے سہے ہوش کھودئیے اور بجز اس کے کچھ عرض نہ ہوسکا کہ حضرت میں تو ان سے بھی زیادہ بدتر وحقیروناکارہ ہوں، فرمایا کہ بس اچھا استخارہ کرلو میں مسجد آتاہوں، میں نے اسی وقت مسجد میں جاکر وضو کرکے دو رکعتیں پڑھ کر دعائے استخارہ مسنونہ پڑھی، کہ حضرت تشریف لائے پوچھا اب کیا رائے ہے؟ عرض کیا کہ وہی رائے ہے، غلامی میں داخل فرمالیجئے۔ اتفاقا اسی وقت مولوی اسحاق صاحب انبہٹوی ابن برادر حمید علی جوحضرت کی خدمت میں پڑھتے اور حضرت ؒ کی ان پر نظر عنایت تھی، وہ بھی بارادئہ بیعت آبیٹھے، حضرت ؒ نے ہم دونوںکو توبہ کرائی اور سلسلۂ غلامی میں داخل فرمایا۔ والحمدللّٰہ علی ذلک۔ (مقدمہ اکمال الیشم ۴۴)مجاہدات وحالات :