حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بنادیا جائے اور یہ لکھ دیا جائے کہ مولوی عبدالطیف صاحب ناظم بلا مشورہ مولوی زکریا صاحب کاندھلوی کے کوئی امر متعلق انتظام مدرسہ و طلبہ نہ کریں فتنہ کا زمانہ ہے۔دو شخصوں کی رائے سے انتظام قرین احتیاط ہے۔‘‘(تاریخ مظاہر جلددوم:۷۵)مرض الوفات کی ابتداء : رمضان المبارک میں فالج کا جو اثر ہوگیا تھا وہ عید کے بعد ختم ہوگیا تھا مگر اپنے پیچھے ضعف و اضمحلال کو چھوڑ گیا جو بڑھتا ہی رہا حتیٰ کہ ربیع الثانی ۴۶ھ کے پہلے ہفتہ میں مرض نے دوسری شکل اختیار کرلی آپ کے سینہ میں درد اٹھا لیکن مالش کی گئی اس سے درد تقریباً دور ہوگیا۔آپ پھر مسجد نبوی تشریف لے جانے لگے اور اپنے علمی کاموں میں مشغول رہے لیکن آپ کے درد سینہ اور ضعف و نقاہت کی وجہ سے اہل تعلق کو فکر رہی آپ کا خیال اس کے برخلاف تھا ۔ لقائے رب کے شوق میں آپ مست و شادماں رہتے تھے گویا اپنے وطن جانے کی تیاری کررہے ہوں۔ اسی درمیان بعض علمائے مدینہ کی درخواست پر عصر کی نماز کے بعد ابو داؤد شریف کا سبق بھی مولانا سید احمد صاحب کی قیام گاہ پر شروع کرادیا ،یہ سبق صرف دو دن شنبہ اور یکشنبہ کو ہوا تھا کہ دو شنبہ کو ظہرکی نماز پڑھ کر مسجد نبوی سے واپس ہورہے تھے کہ راستہ میں سینہ کے اوپر کے حصہ میں کچھ درد محسوس ہوا گھر پہنچ کرمالش اور سینک ہوئی عصر کے وقت تک درد تو بہت کم ہوگیا مگر ضعف و نقاہت بڑھ گئی اس کی وجہ سے ابوداؤد شریف کا درس نہ ہوسکا اور اہل تعلق آپ کے درس سے محروم ہوگئے اس درد اور پھر اس کی وجہ سے اضمحلال جو ہوا اس سے بھی حضرات کو فکر دامن گیر ہوئی لیکن اﷲ کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ عصر کی نماز تک مسجد نبوی میں نہ پڑھ سکے۔مکان پر ہی مولانا سید احمد صاحب کی اقتدا میں کھڑے ہوکر ادا کی۔شدت مرض : عصر کے بعد صورت حال اور بگڑ گئی بدن میں حرارت کم ہونے لگی اور ٹھنڈک بڑھنے لگی پسینہ بھی چھوٹنے لگا اور ہمت جواب دینے لگی اور مغرب کی نماز کھڑے ہوکر پڑھنے کی طاقت نہ رہی مجبوراً آپ نے پلنگ پر بیٹھ کر نماز مغرب ادا کی ،عشاء کی نماز کے لئے پلنگ سے اترنا مشکل ہوگیا اس لئے مغرب کی طرح عشاء کی نماز بھی پلنگ پر بیٹھ کر پڑھی اور ضعف و نقاہت کے ساتھ ساتھ کرب و بے چینی میں بھی اضافہ ہونے لگا آپ کی یہ رات بڑی بے چینی سے گزری پوری رات آپ کی توجہ اﷲ کی طرف رہی۔تمام شب کلمہ و استغفار اور درود شریف پڑھتے رہے۔ سہ شنبہ کی صبح میں نماز فجر بھی پلنگ پر بیٹھ کر ادا کی ،پورے دن دواؤں کا اہتمام جاری رہا مگر ؎ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی ظہر کے وقت ضعف کا یہ حال ہوگیا کہ وضو کرنے کی بھی طاقت نہ رہی اس لئے تمیم فرماکر نماز ادا کی۔بے ہوشی :