حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ذی قعدہ ۴۵ھ تک حضرت مولانا کی خدمت میں رہے تحریر فرماتے ہیں: ’’آخر ماہ مبارک میں کچھ فالج کا اثر ہوگیا تھا اس میں بھی افاقہ ہوجاتا اور کبھی وہ اثر عود کر آتا ۔عید الفطر کے دن بھی اس کا اثر غالب تھا اسلئے عید کی نماز کے لئے حرم شریف تشریف نہیں لے جاسکے لیکن پھر کچھ افاقہ ہوگیا اور حرم شریف لکڑی کے سہارے تشریف لیجانے لگے جب ہم لوگ مدینہ پاک سے واپس ہوئے تو اس وقت حضرت قدس سرہٗ حرم شریف میں معمولی تکلیف کے ساتھ تشریف لے جاتے تھے۔‘‘(مقدمہ کمال ایشم)مرض سے افاقہ : عید کے بعد مرض میں افاقہ ہوگیا مگر کمزوری باقی رہی۔۱۳شوال کو اپنے ہندوستانی خدام کو اس مکتوب کے ذریعہ اپنے مرض اور افاقہ کا حال لکھا جومولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی کو تحریر فرمایا تھا ،اس میں تحریر فرماتے ہیں: ’’اب الحمدﷲ افاقہ ہے اور طبیعت رو بصحت ہے اس لئے اطلاعاً لکھتا ہوں آخر رمضان المبارک میں مجھے کچھ تپ لرزہ کی سخت شکایت ہوئی مگر دو روز بعد تو بالکل جاتی رہی لیکن بائیں ٹانگ اور بائیں ہاتھ میں ایک خدرواسترخاء کی کیفیت پیداہوگئی جس کی وجہ سے چلنا پھرنا بالکل ناممکن ہوگیا تھا اس میں کسی قسم کا درد یا تکلیف بالکل نہیں تھی صرف قوت مشئی اور قوت ماسکہ کام نہیں کرتی تھی اب الحمدﷲ کہ بہت افاقہ ہے اور طبیعت گویا اچھی ہے ،بے تکلف تو اب بھی چلنا یا پکڑنا نہیں ہوتا مگر تھوڑا بہت چل سکتا ہوں۔‘‘حضرت شیخ کو رخصت کرنا اور خلافت و اجازت سے نوازنا : حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث مدظلہٗ حضرت مولانا کی خدمت اور بذل المجہود کے سلسلہ کی تکمیل کی خاطر مدینہ منورہ ساتھ گئے تھے اور انھوں نے حضرت مولانا کی خدمت اور تکمیل بذل میں اتنا مشغول وقت گزارا کہ کوئی اور کام نہ کرسکے۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی تحریر کرتے ہیں: ’’حج کا یہ سفر اور استاذ و مرشد کی مسلسل و ہمہ وقت رفاقت ایک عالی استعداد ،سراپا محبت و اطاعت مسترشد کے لئے جس کے سفر کا اصل مقصد ہی شیخ کی خدمت و اعانت اور استفادہ تھا جیسی روحانی اور باطنی ترقیات اور حصول کمالات کا ذریعہ بنی ہوں گی اس کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہیں ،شیخ نے مدینہ طیبہ کے طویل قیام میں بھی حضرت کی خدمت میں حاضر رہنے بذل کی تالیف میں مدد دینے کے علاوہ کسی مشغلہ اور دلچسپی سے سروکار نہیں رکھا اس مصروفیت و انہماک کی وجہ سے وہ مسجد نبوی کی حاضری اور بقیع کی زیارت کے علاوہ کہیں آجا نہیں سکے۔‘‘ (سوانح مولانا محمد یوسف ۹۶) حضرت مولانا کی دلی خواہش تھی کہ جو مسترشد ہمیشہ ساتھ رہا ہے اور خدمت و اعانت میں ہمہ وقت مشغول رہا ہے وہ اس ضعیف العمری میں بھی ساتھ رہے اس لئے کہ حضرت مولانا نے اب مدینہ منورہ کے قیام کو اختیار کرلیا تھا اور پھررمضان مبارک سے علالت کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا تھا اور آپ ایک حد تک معذور بھی ہورہے تھے مگر مدرسہ مظاہر علوم (جس کی بنا سے لے کر حجاز