حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’ایک مرتبہ میں حاضر تھا کہ ایک طالب علم کی آپ کے پاس محرر مطبخ کے متعلق شکایت آئی جس کا خلاصہ تھا کہ وہ طلبہ کو کھانا تقسیم کر رہے تھے اس طالب علم کو جلی ہوئی روٹی ملی جس کے لینے سے انکار کیا اور محرر مطبخ نے سختی سے جواب دیا کہ اب خنّے بہک گئے کہ جلی اور موٹی سوجھنے لگی لینا ہے لو ورنہ جاؤ مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کو اپنے حصہ میں لگا لوں یا جو روٹی جلے اس کا تاوان دیا کروں۔‘‘ حضرت یہ خبر سنتے ہی اس مطبخ میں آئے اور غصّہ کی وجہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا میں ساتھ تھا اور دیکھ رہا تھا کے حضرت کے بدن اور آواز دونوں میں رعشہ ہے محرر مطبخ سے آپ نے واقعہ پوچھا اور جب انھوں نے خود ہی اس توقع پر صحیح صحیح بیان کردیا کہ طلبہ کا نظام قائم رکھنے کیلئے محرر کی طرف داری کی جائے تو اس وقت آپ نے فرمایا منشی جی سنو!: ’’مدرسہ انہیںپر دیسی ،بے وطن ،مسکین طلبہ کے دم سے قائم ہے اور تم اور میں دونوں انہیں کے طفیل میں روٹیاں کھا رہے ہیں اگر یہ نہ ہوں تو نہ مطبخ کی ضرورت،نہ تمہاری حاجت مدرسین بھی فارغ مدرسی بھی خالی،یہ مسکین سہی محتاج سہی مگر مجھے اور تمھیں دونوں کو روٹیاں دے رہے ہیں ،مجھے صرف یہ بتا دو کہ تمھیں ترش کلام کرنے کا کیا حق تھا اور تم کون تھے یہ کہنے والے کہ خنّے بہک گئے ہیں میں انکا باپ بنا ہوا ابھی زندہ بیٹھا ہوں تم کو مطبخ سے جزو تنخواہ بنا کر دو خوراک ملتی ہیں آخر کیا وجہ تھی کہ جلی ہوئی روٹی تم اپنی خوراک میں نہ لگا سکے اور مہمان رسول کو مجبور کیا کہ یا تو یہی جلی ہوئی کھائے ورنہ فاقہ کرے اب تو اپنی خوراک اسکے حوالے کردو اور آئندہ کے لئے خوب کان کھول لو کہ کسی طالب علم کے ساتھ کچھ بھی تیز یاترش برتاؤ کیا تو کان پکڑ کر مطبخ سے نکال دوں گا ہاں کسی طالبعلم کی کوئی غلطی ہو تو مجھ سے کہو میں تحقیق کے بعد جو سزا مناسب سمجھوں گا دوں گا مگر دوسرے کو نہ دیکھ سکوںگا کہ وہ انہیں ترچھی نظر سے بھی دیکھے چونکہ پہلی غلطی ہے اسلئے اس وقت تنبیہ پر اکتفا کرتا ہوں کہ آئندہ اس کا پورا لحاظ رکھا جائے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل :۲۱۰وارواح ثلاثہ)اساتذہ کا احترام : لیکن طلبہ کے ساتھ شفقت و محبت کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا احترام اور ان کا لحاظ بھی پیش نظر رہتا تھا ،ان کو اپنے سے کمتر نہ جانتے وہ خدمت میں آتے تو خوش کلامی اور مسکراہٹ کے ساتھ پیش آتے اور بڑے چھوٹے کی تمیز نہ کرتے کسی استاذ کی بے اعتدالی یا سختی پر متنبہ کرنا ہوتا تو طلبہ کے سامنے نہ کرتے بلکہ حکمت و موعظت کا پہلو اختیار کرتے ،اس سلسلہ کا ایک واقعہ مولانا عاشق الٰہی صاحب نے اس طرح لکھا ہے: ’’مولوی ظفر احمد کے مزاج میں غصہ تھا ایک مرتبہ طالب علم کے بے تکے سوالات پر انکو پڑھاتے ہوئے غصہ آیا تو کتاب فلسفہ کی تھی طالبعلم کے منہ پر ماری حضرت کے قریب ہی ان کی درسگاہ تھی اور حضرت نے سب دیکھ اور سن لیا تھا ،اس وقت گرفت کرنے میں طالبعلم کی جرأت بڑھنے کا اندیشہ تھا اور حضرت کو اس کا خاص اہتمام رہتا تھا کہ طلبہ کے قلوب میں استاذ کی عظمت قائم اور باقی رہے اسلئے ایسا کردیا گویا سنا ہی نہیں ،بعد عصر جب مولوی ظفر احمد صاحب مجلس میںآکر بیٹھے تو حضرت نے فرمایا مولوی ظفر کیا کتاب سے بھی مارا کرتے ہیں،کتاب تو اس کے لئے موضوع نہیں ہوئی پھر کتاب بھی مدرسہ کی جوکہ وقف ہے اور جس کی حفاظت