حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آپ کی عادت بن گیا تھا۔ (آپ بیتی۶/۲۴۰) آپ کے درس و تدریس کے معمول کو مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی اس طور پر بیان کرتے ہیں: ’’حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کے درس میں اول صبح کے دو گھنٹہ ترمذی شریف ہوا کرتی تھی اور اس کے ختم ہوجانے پر بخاری شریف شروع ہوجاتی تھی اور رجب کے وسط میں دونوں کتابوں سے بااطمینان فراغ ہوجاتا تھا اس کے بعد فقہ و تفسیر کے اعلیٰ اسباق ہوتے اور اوقات مدرسہ میں ایک گھنٹہ آپ کا درس سے فارغ رہتا تھا جو فتاویٰ لکھنے یا دوسروں کے لکھے ہوئے کو دیکھنے اور سننے میں خرچ ہوتا تھا۔ ۲۸ ھ سے جب مولوی محمد یحییٰ صاحب تشریف لے آئے تو آپکا ایک گھنٹہ صبح کا اور ایک شام کا فارغ ہونے لگا اور یہ وقت امور نظم مدرسہ میں صرف ہونے لگا۔ ۳۵ ھ میں جب آپ نے ابوداؤد کی شرح بذل المجہور کی تالیف شروع فرمائی تو دو گھنٹے صبح کے تالیف کے لئے رکھے تھے اور ایک گھنٹہ شام کا فتاویٰ کے لئے اور باقی گھنٹوں میں درس مگر ۳۹ ھ میں صبح کا تمام وقت بذل کی تالیف میں مستغرق ہوگیا اور شام کو ایک سبق کا آپ درس دیتے تھے جو ہر سال بدل جاتا تھا کہ ایک سال ابوداؤد شریف ہوتی دوسرے سال مسلم شریف اور پھر نسائی شریف آخر کے دو سال ۴۳،۴۴ھ میں صرف مولانا امام محمد طلباء کے اصرار پر تبرکاً پڑھاتے اور صبح کا تمام وقت بذل المجہود میں خرچ ہوتا تھا اور شام کا خطوط کے جوابات اور فتاویٰ میں۔(تذکرۃ الخلیل:۲۴۷)اسباق کی نگرانی : حضرت مولانا جب تک صرف مدرس رہے تو درس و تدریس پر پوری توجہ کی اور متوازن و معتدل طریقہ تعلیم اپنایا اور جب سے مدرسہ کی نظامت پھر سرپرستی کا منصب ملا تو مدرسین کی نگرانی اور ان کے اسباق پڑھانے کا معائنہ فرمایا کرتے اور ایسے وقت خاموشی سے درجہ میں پہونچ جاتے جب مدرسین (جو عام طور پر آپ ہی کے تلامذہ اور متعلق تھے)درس میں مشغول رہتے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ آپ کا معمول اور اس سلسلہ کا ایک واقعہ اس طرح تحریر فرماتے ہیں: ’’میرے حضرت قدس سرہ کا معمول بڑے اہتمام سے مدرسین کے اسباق کی نگرانی کرنا تھا مگر اس کا بھی بڑا ہی عجیب طرز تھا حضرت کا خاص معمول یہ تھا کہ خصوصی مہمانوں کو مدرسہ و دار الطلبہ دکھانے خود تشریف لے جاتے اور گشت کرتے ہوئے مدرسین کے اسباق کے سامنے دو دوچار منٹ قیام فرماتے ،اس سے اس ناکارہ کو بھی بہت سابقہ پڑا ۔ایک مرتبہ اس سیاہ کار کو بھی زور کا بخار ہورہا تھا اور مشکوٰۃ شریف کا سبق ہورہا تھا،میرے حضرت قدس سرہ جدہ کے سفیر ہند کو لے کر دار الطلبہ تشریف لے گئے مجھے حضرت کی تشریف بری کا احساس نہیں ہوا ،حدیث مصراۃ کی بحث تھی دفعۃً حضرت قدس سرہ پر نظر پڑ گئی میری زبان لڑ کھڑا گئی اور حضرت آگے بڑھ گئے بعد میں طلبہ نے بتایا کہ حضرت تقریباً پندرہ منٹ سے کھڑے ہوئے تھے۔اسی طرح دوسرے مدرسین کے اسباق میں بھی مہمانوں کے ساتھ جاتے رہے بعض سبقوں میں ۵ منٹ بعض میں ۷ منٹ تک کھڑے رہتے مدرس بیچارے کو کیا خبر کہ آج کوئی مہمان آوے گا،اور حضرت اس کے ساتھ تشریف لے آویں گے لیکن مدرسین کو اس کا فکر مستقل سوار رہتا۔‘‘