حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بتاریخ او داغ برجان دل اہلیہ صاحبہ کے انتقال پر آپ نے وطن آکر چند دن قیام کیا، ان بیوی صاحبہ کی دو یاد گاریں تھیں، ایک کی عمر ۲۵سال کی تھی اور دوسری کی عمر ڈھائی سال کی، آپ کے لئے ان بچوں کی تعلیم وتربیت ایک بڑا مسئلہ بن گئی تھی، آپ نے وطن میں رہ کر اس کا خاطر خواہ انتظام کیا اور اپنی والدہ ماجدہ کی خدمت میں اور والدہ ماجدہ کے انتقال کے بعد اور دوسرے عزیزوں کے پاس رکھا اور خود خرچ کاانتظام اپنے ذمے کیا اور بھاولپور واپس تشریف لے گئے۔حضرت مولانا کا عقدثانی : آپ بھاولپورمیں ہی تھے کہ آپ کے والدین نے آپ کے عقد ثانی کی فکر کی اور ۱۲۹۷ھ میں آپ کا دوسرا عقد انبہٹہ میں حاجی نظام الدین صاحب کی صاحبزادی منیرالنساء بی بی کے ساتھ دو ہزار روپیہ مہر پر منعقد کیا، یہ بیوی بیوہ تھیں اور یہ نکاح حضرت گنگوہی کے مشورے سے ہوا تھا اور ان ہی کے انتخاب پر حاجی نظام الدین نے اپنی صاحبزادی کا عقد آپ کے ساتھ کیا، ان بیوی صاحبہ سے تین صاحبزادیاں ہوئیں ، جن میں زبیدہ نام کی صاحبزادی کا چار ہی سال کی عمر میں انتقال ہوگیا اور دوسری دوصاحبزادیاں ام ہانی، اور سلمیٰ جوان اور صاحب اولاد ہوئیں۔دوسراحج : حضرت مولانا بھاولپور میں مولوی شمس الدین صاحب چیف جج بھاولپور کے یہاں بغرض درس وتدریس مقیم تھے اور مولوی صاحب موصوف کو آپ سے ایک گونہ تعلق پیدا ہوگیا تھا، اس درمیان مولوی شمس الدین صاحب نے حج کا ارادہ کیا اور خواہش ظاہر کی کہ حضرت مولانا بھی ان کے ہمراہ ہوں تاکہ ادائے مناسک میں آسانی ہو، دوسری طرف آپ کو دوبارہ خبر ملی کہ اس سال پھر حضرت گنگوہی اور آپ کے ماموں مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی حج کا ارادہ فرمارہے ہیں تو آپ کے دل میں حج کا شوق پیدا ہوا اور جو گزشتہ دو سال پہلے ان مبارک ہستیوں کی ہمرکابی نصیب نہ ہوسکی تھی اس کے بدل کا موقع آیا، آپ نے حضرت گنگوہی کو اپنا شوق تحریر کیا اور اجازت طلب کی اور حضرت کے پروگرام کے متعلق دریافت کیا۔ حضرت گنگوہی نے اس کا جواب دیا جس میں حضرت مولانا کو کچھ مشورے دئیے اور اپنے حج کے متعلق تحریر فرمایا: ’’مولوی شمس الدین کے حال ومزاج پر جو آپ کو طمانیت ہے اور بظن غالب وہ ایسے ہیں تو ان کے ساتھ جانے میں کیا اندیشہ ہے؟ بندہ کی رائے ہے کہ آپ قصد فرماویں مگر تاہم کچھ اس قدر خرچ، اپنے پاس رہنا چاہئے کہ اگرخدانخواستہ کوئی صورت دیگر پیش آجاوے تو احتیاج نہ پڑے بارہا ایسا ہوا ہے کہ کفیل حجاج فوت ہوگیا ، یا مزاج کی مخالفت پیش آئی جس سے افتراق ہوا تو ایسی صورت میں بہت پریشانی ہوتی ہے اور یہ سب تدبیر ظاہر ہے کہ جس کااستعمال ممنوع نہیں ہے، ورنہ ہوتا وہی ہے جو رضائے تعالیٰ شانہ ہے، اب بندہ