حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
تجویز تحریر کی جس میں ممبران کمیٹی کی تجویز علیحدگی کاذکر کرتے ہوئے حضرت مولانا کو بالکل بے قصور قرار دیا اور تجویز علیحدگی کو زبردستی کی بات لکھ کر آپ کی علیحدگی کو ناجائز تحریر کیا اور اپنی تجویز کو نئے سرپرستوں کا انتخاب کرتے ہوئے ان الفاظ پرختم کیا: ’’ہماری رائے میں اس مدرسہ کے سرپرست مولوی ذوالفقار علی صاحب دیوبندی اور مولوی عبدالرحیم صاحب رائپوری اور مولوی اشرف علی تھانوی مقرر کئے جائیں ، تاکہ متعلق تعلیم وتقرر وبرخواستگی وترقی وتنزل مدرسان مدرسہ ان کی رائے سے ہوا کرے اور طریقہ تعلیم کے وہ نگراں اور سرپرست رہیں، اور دیگر رؤساء وعمائدین شہر بطور ممبر کے ہیں،جو ترقی چندہ وانتظامات مدرسہ کے کوشاں ہیں۔‘‘ (تاریخ مظاہر ۸۸) اس فیصلہ میں صرف خدا کی مدد اور غیبی طاقت کا ظہور ہوا اس میں بظاہر کسی انسانی کوشش اور اس کی تکمیل میں اس کا کوئی ہاتھ نہ تھا جس وقت ہنگامہ شروع ہوا اور جس نہج اور انداز پر چلاوہ مکمل طور پر مدرسہ کی تباہی یا اہل علم کی رسوائی کی راہ پر ڈال رہا تھا مدرسہ کا ہر مخلص یہ سمجھتا تھا کہ اس چمنستان علم دین پر اب خزاں کا دور آیا ہی چاہتاہے لیکن تقدیر الٰہی نے اس میں خیر کا پہلو رکھ کر اس کو انجام بخیر عطا فرمایا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا شروفساد ھباء منشورا ہوکر رہ گیا، مخالفین کی بعد میں آنکھیں کھلیں ان کو بھی اس کا اندازہ نہ تھا کہ ان کے ارادے اور عزائم اس طرح پلٹ کر رہ جائیں گے، ان کو یقین تھا کہ یہ فیصل حضرات ہمارے ہیں اور ہمارے ہی خیالات کی ترجمانی کریں گے لیکن خدا کے فیصلے میں کسی کا کیا دخل حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہٗ تحریر فرماتے ہیں: ’’ان ثالث حضرات سے بعض مخالف ممبران نے جو دنیاوی حیثیت سے بااثر اور ذی وجاہت تھے فیصلہ تحریر کرنے کے بعد دریافت کیا کہ یہ تم نے کیا لکھ دیا ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہمیں کچھ خبر نہیں کہ ہم نے کیا لکھا، ہم نے جو فیصلہ تحریر کیا وہ اپنے اختیار سے نہیں لکھا بلکہ کوئی طاقت ہم سے لکھوارہی تھی اور ہم اس کے لکھنے پر مجبور تھے یہ حضرت گنگوہی کی کھلی کرامت ہی ہے کہ حضرت سہارنپوری کو علیحدہ کرنے والے حضرات خود ہی علیحدہ ہوگئے۔‘‘ (مظاہر اول:۸۸۔۸۹)نئے سرپرستوں کا احساس ذمہ داری اور فرائض کی انجام دہی : ان نئے سرپرستوں نے جوپاک نفوس پر مشتمل تھے اپنا کام شروع کردیا، اور مدرسہ کی دیکھ ریکھ کرنے لگے، مدرسہ سے تشریف لاتے حالات ملاحظہ کرتے اور خامیاں درست کرتے فیصل حضرات کا یہ فیصلہ ۲۶ ذی قعدہ ۱۳۲۰ھ کو ہوا اور اسی تاریخ کو نئے سرپرست حضرات مدرسہ میں جمع ہوئے اور اپنا کام شروع کردیا۔سرپرستوں کی تجویز اور حضرت مولانا کا تورع : جتنے دن تک مدرسہ میں یہ ہنگامہ رہا اور پورا مدرسہ ہچکولے کھاتا رہا کوئی چیز اپنی جگہ پر نہ تھی، نہ طلباء دلجمعی سے سبق پڑھتے تھے نہ اساتذہ میں سبق پڑھانے کا وہ ذوق وشوق تھا جو عام دنوں میں ہوا کرتاتھا لیکن حضرت مولانا نے ان ہنگامہ خیز دنوں میں بھی اپنے