حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
جلسہ سالانہ اور حضرت مولانا عبدالقادر صاحب کی آمد : سالانا جلسہ میں ہرسال علماء و مشائخ کا اجتماع ہوتا تھا،اس جلسہ میں سر رحیم بخش بھاولپوری اور حضرت مولانا عبد القادرصاحب کو جو حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب رائپوری کے جانشین اور خلیفہ تھے تشریف لائے،حضرت مولانا سہارنپوری بھی اب اپنی عمر کی آخری منزلوں میں قدم رکھ چکے تھے،ضعف و نقاہت اپنی حد کو پہونچ گئی تھی اور آپ کا شہرہ دور دور ہورہا تھا،آپ کے اکابر ایک ایک کرکے اٹھ چکے تھے اب آپ ہی اپنے اکابر کی جگہ لے رہے تھے،آپ کی طرف رجوع عام تھا کہ بڑے بڑے علماء آپ سے بیعت ہونا فخر کی بات جانتے تھے۔ اس جلسہ میں مدرسہ کی ایک طالبعلم نے ایک سو بارہ اشعار کی ایک بڑی نظم پڑھی جس میں مدرسہ کی خدمات اکابر مدرسہ اور اساتذہ کی منقبت تھی ،جس میں حضرت مولانا کے ذکر کے بعد مولانا عبد الطیف صاحب،مولاناعبدالرحمٰن صاحب،شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب ،مولانا اسعد اﷲ خاں صاحب کا ذکر خیر تھا۔اس نظم کے شروع کے چار شعر حسب ذیل تھے ؎ سر پر ہے آج سایہ جنابِ خلیل کا مقبول بارگاہ جنابِ خلیل کا ہے مظہر جمال وہ حسنِ جمیل کا کب دخل اسکے وصف میں ہے،قال و قیل کا خورشید خرچ رشد و ہدایت ہے اسکی ذات اخلاقِ احمدی کا نمونہ ہیں سب صفات روشن ہیں انکے نام سے عالم میں شش جہات صحبت ہے انکی باعث صد رحمت و نجات اس پوری نظم کو مولانا سر رحیم صاحب نے طبع کراکر مفت تقسیم کرادیا۔ یہ جلسہ اس حیثیت سے اہم تھا کہ حضرت مولانا کی سرپرستی کے دور کا آخری جلسہ تھا جس میں آپ نے شرکت فرمائی ،اس کے بعد ہی ۱۳۴۴ھ میں آپ نے ہجرت فرمائی اور ہندوستان کو بالکل خیرباد کہہ دیا۔مولانا صدیق احمد کی وفات اورآپ کا تاثر : حضرت مولانا کے چچا زاد بھائی مولانا صدّیق احمد صاحب مفتی مالیر کوٹلہ جو حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کے اجل خلفاء میں تھے اور بڑے صاحب حال اور باکمال شخصیت کے مالک تھے،مدرسہ مظاہر علوم کے ہمدردوں اور ممتحنین میں تھے،سالہاسال تک مظاہر علوم اور دارالعلوم دیوبند کے ممتحن خاص تھے،حضرت مولانا کے بچپن کے ساتھی اور رفیق تھے ،ایک دوسرے کو ایک دوسرے سے بڑا قلبی تعلق تھا۱۳۴۴ھ کو انتقال کر گئے،ان کے انتقال کی خبر حضرت مولانا کو ہوئی تو آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا اور