حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۷ ربیع الثانی ۱۳۳۹ھ مطابق ۱۹۲۰ء کو حضرت مولانا نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب کی خدمت میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا صاحب مدظلہٗ العالی کو بھیجا اور ایک پرچہ لکھا جس میں یہ تحریر تھا: ’’اس وقت سنیوں کی طرف سے التواء ہرگز مناسب نہیں، آپ میرے نام ایک خط جلدی بھیجدیں کہ مناظرہ جاری رکھاجائے یا مناظرہ ملتوی نہ کیاجائے۔‘‘ انہیں دنوں میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کلکتہ تشریف لے جارہے تھے، جس وقت ان کی گاڑی امروہہ کے اسٹیشن پر رکی تو حضرت مولانا کی طرف سے کلکتہ نہ جانے اور امروہہ رک جانے کا حکم پہنچا ، حضرت مدنی ؒ حضرت مولانا کا نہایت ادب واحترام کرتے تھے اور حضرت شیخ الہند ؒ کی جگہ سمجھتے تھے اس لئے آپ کے حکم پر حضرت مدنی اترگئے۔ ادھر جب شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ العالی دہلی پہنچے تو دیکھا کہ حضرت شیخ الہند ؒ سخت علیل ہیں اور سخت دورہ پڑچکا ہے اس لئے وہ پرچہ خدمت میں پیش نہ کرسکے، صبح ہوتے ہوتے حضرت شیخ الہند وصال فرماگئے، آپ کا وصال ۱۸ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ مطابق ۳۰ نومبر۱۹۲۰ء کوہوا اور تدفین دیوبند میں ہوئی، حضرت مولانا کو جب حضرت شیخ الہند کی وفات کا علم ہو ا تو دل ودماغ کو اتنا بڑا دھکا پہنچا کہ کم کسی کے حادثہ انتقال پر پہنچا تھا مگر اس حادثہ انتقال کے ہوتے ہوئے بھی آپ نے مناظرہ ملتوی نہ کیا بلکہ جب تک شیعوں نے راہ فرار اختیار نہ کی آپ نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی اس مناظرہ کا حال تحریر کرتے ہیں: ’’اخیر نومبر۱۹۲۰ء کو امروہہ میں جو مشہورمناظرہ روافض کے ساتھ ہوا اس میں مولانا عبدالشکور صاحب کو مناظر بناکر آپ نے کھڑا کیا، اور خود جلسہ کے پورے وقت میں پاس بیٹھے رہے حتی کہ اثناء تواریخ مناظرہ میں ۳۰ نومبر مطابق ۱۸ ربیع الاول کو آپ کو حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ کے سانحہ انتقال کی اطلاع ملی مگر آپ میدان مناظرہ کو صرف اس لئے نہ چھوڑ سکے کہ فریق مخالف فرار پر محمول کرکے مخلوق پر اپنا رنگ جمائے گا آخر جب فریق مقابل خائب وخاسر ریل سوار ہولیا تب آپ امروہہ سے چلے۔‘‘(تذکرۃ الخلیل:۱۳۵)ارتداد کا فتنہ اور حضرت مولانا کی فکروپریشانی : حضرت مولانا کو اللہ تعالیٰ نے تعلیمی اور تعمیر ی صلاحیتوں کے علاوہ دین کا درد اور جذبہ بھی عطا فرمایاتھا اور جب بھی کہیں اسلام اور دین کے خلاف کوئی شورش ہوتی تو آپ فکر مند ہوجاتے اور دوسرے اہل فکر اور دردمند علماء کے ساتھ شریک ہوجاتے ، کبھی آپ حضرت شیخ الہند کے ساتھ ملک کی آزادی کی کوشش میں لگتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی حضرت تھانوی کے ساتھ تبلیغ ودعوت اسلامی کے کام میں مشغول پائے جاتے ہیں ۱۳۴۱ھ میں جب راجپوتانہ اور آگرہ سے ارتداد کی خبریں آنی شروع ہوئیں تو حضرت تھانوی کو اس کی فکر ہوئی اور انہوں نے وفود بھیجنے شروع کئے ، مظاہر علوم سے حضرت مولانا کے تلامذہ اور متعلقین جن پر آپ کو اطمینان تھا اس مبارک کام کے لئے منتخب ہوئے جن میں مولانا اسعداللہ صاحب مدظلہٗ، مولانا عبدالکریم صاحب گتھلوری اور