حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(تذکرۃ الخلیل:۲۰۷،۲۰۸) حضرت مولانا کو مدرسہ سے اتنا عشق ہوگیا تھا کہ اول سے آخر زمانے تک آپ نے اس کی ترقی و تعمیر کے لئے اپنی ساری صلاحیتیں خرچ کردیں اپنے ضعف و ناتوانی کا بالکل خیال نہیں کیا اور بڑے سے بڑے انقلاب اور حادثہ کا مقابلہ کیا ہر نازک موقعہ پر سینہ سپر رہے ایسے موقعے بھی آئے کہ گھرمیں فاقہ تھا مگر درس دینے میں غفلت نہ کی نہ چھٹی لی اور نہ سستی دکھائی مدرسہ کے لئے ہر موسم میں سفر کئے راندیر ،بمبئی ،رنگون ،بھاولپور ،جوناگڑھ جیسے دور دراز علاقوں کا سفر کیا اور ذہن و دماغ قلب و جگر اور جسم کو اس مادر علمی کے سنوارنے اور نکھارنے میں گھلادیا ،تنخواہ کے معاملے میں بھی آپ نے گذشتہ اوراق میں پڑھا ہوگا کہ کتنے زاہد تھے،جب بھی تنخواہ بڑھنے کا موقع آتا تو دوسرے مدرسین کی تنخواہیں بڑھ جاتیں اور حضرت مولانا کی تنخواہ میں اس لئے اضافہ نہ ہوتا کہ مولانا اس اضافہ کو منظور نہ فرماتے ایک مرتبہ زبردستی اضافہ کیا گیا اور چالیس سے پچاس روپیہ ہوئے تو حضرت مولانا نے فرمایا: ’’چالیس روپیہ ہی کے قابل کام کرنا مشکل ہے اب پچاس کے قابل کا م کس طرح انجام دوں۔‘‘ حضرت مولانا مدرسہ کے ہر شعبہ کی نگرانی فرماتے اور بحسن و خوبی کسی کام کو کسی پر نہ چھوڑتے بلکہ اپنی گرفت مضبوط رکھتے جن لوگوں کو اس دور کے دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے یا حضرت مولانا سے کسی قسم کا تعلق رہا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولانا کی توجہ و انہماک کا یہ عالم تھا اور آپ کی ہیبت متعلقین مدرسہ پر ایسی طاری تھی کہ کوئی مدرس چند منٹ کی غیر حاضری کو بھی حضرت مولانا سے چھپا نہیں سکتا تھا تعلیم سے لے کر طلباء کی حاضری تک حضرت مولانا کی نظر میں رہتی تھی،طلباء کا مطالعہ یا تکرار، پابندی نماز ہو یا تلاوت قرآن ،صفائی و ترتیب ہو یا مطبخ اور اجناس کی مقدار کتب خانہ کی محافظت ہو یا کسی اور شعبہ کی کارگزاری سب ہی حضرت مولانا کے علم میں رہتی تھی اور پورے مدرسہ کا نظام ادنیٰ سے اعلی تک حضرت کے حکم اور اشارے پر چل رہا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ مدت تک آپ صدر مدرس رہے پھر ناظم ہوئے اور پھر سرپرستوں میں شمار کئے گئے مدرسہ کے سارے انتظام کا اور مدرسین آپ کے تلامذہ اور متعلق تھے آپ سب کے شیخ تھے اور سب آپ کے فرمانبردار اور اطاعت گزار تھے وہ سعادت مند بیٹوں کی طرح آپ کی بات مانتے اور آپ شفیق باپ کی طرح سب کے ساتھ معاملہ کرتے نہ کوئی اختلاف تھا نہ حکم عدولی کا کسی میں جذبہ پرورش پارہا تھا ،اس صورت حال نے مدرسہ کو ترقی دی اور حضرت مولانا کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔آپ کے دم قدم سے مدرسہ کی ترقی : آپ کے دور صدر مدرسی نظامت اور سرپرستی سے مدرسہ مظاہر علوم کو جو فائدہ پہونچا اس کے متعلق صاحب تاریخ مظاہر لکھتے ہیں: ’’حضرت اقدس رحمۃاﷲ علیہ کے وجود سے مدرسہ کو جو باطنی و روحانی منافع پہنچے اس کا ادراک و احساس تو ہم کو رچشموں کے لئے یقیناً مشکل بلکہ حیطامکان سے خارج ہے لیکن ظاہری و مادی ترقیات کے پیش نظر ہم یہ بات کھل کر کہہ سکتے ہیں کہ حضرت کی مدرسہ میں