حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور تلخ کلامی حد سے سوا ہوگئی تو آپ نے اپنے مشفق شیخ ومرشد حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کی خدمت میں اہل سکندر آباد کی مخالفتوں کی تفصیل لکھی اور ان کی ایذا رسانی کاحال لکھا۔ سکندر آباد میں اگرچہ مخالفتوں کابڑا زور تھا اور ان میں بہت سے اہل علم اہل منصب اور اہل وجاہت بھی داخل تھے لیکن ایک طبقہ ایسا بھی تھا کہ وہ آپ کا ہمنوا اور پشت پناہ تھا اور آپ کے لئے سینہ سپر رہتاتھا مگر جنہوں نے آپ کی مخالفت کی، ان کا زور بہت تھا اور ان کو قوت وطاقت حاصل تھی جس کی وجہ سے آپ کا پریشان ہونا فطری تھا آپ ان مخالفتوں کی وجہ سے سکندر آباد کے قیام سے بد دل ہوگئے اور واپسی کی اجازت چاہی۔حضرت مولانا گنگوہی کا مکتوب گرامی : حضرت گنگوہی ؒ نے آپ کو تسکین دی، صبروتحمل کی ترغیب دی، اور نرمی،لینت، خوش اخلاقی کے ساتھ قیام کرنے پر زور دیا، آپ نے اپنے جوابی مکتوب میں تحریر فرمایا: ’’مولوی خلیل احمد صاحب مدفیوضہم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، آپ کے نام نے ورود کیا حال معلوم ہوا، قصہ جدید سے آپ وحشت نہ کریں ، عالم میں موافق ومخالف دونوں ہوتے ہیں، آپ اپنا کام کئے جاویں اگر مخالف برسر ہیں تو موافق بر سر نگہداشت ہیں، جب تک ہو اپنی طرف سے ترک مت کرو، اپنی طرف سے سب کو راضی رکھنا بہتر ہے شاید کچھ نافع ہوجائے، قال اﷲ تعالیٰ فبمارحمۃ من اﷲ لنت لہم۔ الخ مگر اس فرقہ کا راضی ہونا متوقع نہیں ،خصوصا جب واعظ ان کے ترغیب دینے والے دورہ کرتے ہوں۔ فقط والسلام۔روز جمعہ ۱۶ جمادی الثانی ۱۲۹۴ھ۔ (مقدمہ اکمال الیشم)دوبارہ ہنگامہ اور وطن واپسی : حضرت گنگوہی ؒ کا یہ مکتوب جب آپ کی خدمت میں پہنچا تو آپ کی بددلی خوشدلی سے بدل گئی، اور آپ نے واپسی کا ارادہ ترک کردیا، اور درس وتدریس کے فرائض میں اسی طرح مشغول ہوگئے جیسے اہل بدعت کے ہنگامے سے پہلے مشغول تھے لیکن آپ کا یہ ذہنی سکون اور دلجمعی زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکی اور پورے زور وقوت کے ساتھ آپ کے خلاف اتہامات والزامات کی بوچھار کی گئی اور اس میں اس حدتک بڑھ گئے کہ آپ کا سکندر آباد میں رکنا دشوار ہوگیا آپ نے پھر اپنے شیخ حضرت گنگوہی قدس سرہ کو پورے حالات سے آگاہ کیا اپنی نرمی کے برتاؤ اور مدارات کے باوجود اہل بدعت کی تنگ دلی اور عداوت کی تفصیل لکھی۔ حضرت گنگوہی قدس سرہ نے سکندر آباد اور مدرسہ عربیہ سے استفیٰ دینے کی اجازت مرحمت فرمادی، آپ مہینہ سوا مہینہ ہی سکندر آباد رہے تھے کہ ان ہنگاموں کی وجہ سے وطن تشریف لے آئے۔ایک ناکام مبارک آرزو :