حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
معتمد بھی ہو یہ دونوں خصوصیتیں مولانا محمد یحییٰ صاحب کاندھلوی کے فرزند رشید اور آپ کے معتمد خاص حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی میں بدرجہ اتم موجود تھیں کہ وہ ایک طرف اکابر کاندھلہ کے چشم وچراغ حضرت گنگوہی کی آنکھیں دیکھے ہوئے اور گود میں کھیلے ہوئے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے شاگرد رشید اور منظور نظر تھے، اس کے علاوہ ان کے والد ماجدمولانا محمد یحییٰ صاحب کے مدرسہ پر احسانات بھی تھے انہوں نے جانفشانی اور محنت سے مدرسہ میں تعلیم دی اور معاوضہ آخرتک نہیں لیا ، اس کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ ان کے خلف الرشید کو جو ہر طرح مدرس کے منصب کے اہل تھے مدرسہ کی خدمت تدریس سپرد کی جائے، اس لئے مدرسہ کے سرپرستوں نے حضرت مولانا محمد زکریا صاحب (شیخ الحدیث) کو منتخب کرتے ہوئے تحریرکیا: ’’مولوی (محمد یحییٰ) صاحب کے حقوق مدرسہ پر بہت ہیں نظر برآں مناسب ہے کہ مولوی زکریا(صاحب) کو بیس روپیہ پر مدرسین میں لیاجائے اور دو تین اسباق سے زیادہ نہ دئیے جائیں باقی وقت کچھ اپنے اوقات درس میں اور کچھ تجارت میں خرچ کریں۔‘‘ (دستخط سرپرستان مدرسہ)آپ کا مولانا محمد زکریا صاحب سے تعلق اور کاندھلہ سفر : چونکہ مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی ۱۳۲۸ھ سے لے کر اس وقت تک آپ ہی کی خدمت میں رہے تعلیم حاصل کی تربیت لی اور خادم خاص بنے، اس لئے لازمی طور پر ان سے آپ کووہ محبت ہوگئی جو کسی باپ کو اپنے بیٹے سے ہوتی ہے، مولانا محمد یحییٰ صاحب کے انتقال کے بعد ان سے اور زیادہ تعلق بڑھا اورمحبت میںاضافہ ہوا اور یہ محبت اتنی بڑھی کہ ایک مرتبہ کسی اجنبی شخص نے آپ کے محبت آمیز برتاؤ کو دیکھ کر پوچھا کہ حضرت یہ مولوی زکریا آپ کے بیٹے ہیں ؟ بے ساختہ آپ نے جواب دیا’’جی بیٹے سے بڑھ کرہیں‘‘۔ مولانا محمد زکریا صاحب( شیخ الحدیث) کی والدہ محترمہ نے حضرت مولانا کے پاس پیغام بھیجا کہ میری طبیعت بہت خراب ہے زندگی کا کوئی اعتبار نہیں، اس لئے میں چاہتی ہوں کہ زکریا کا نکاح میرے سامنے ہوجائے تاکہ میرا گھر کھلا رہے، حضرت مولانا نے اسی وقت کاندھلہ کے اعزا واقارب کو تقاضے کا خط لکھوایا اور مقررہ تاریخ پر چند اکابر کو لے کر کاندھلہ پہنچے اور ۲۹ صفر ۱۳۳۵ھ دوشنبہ کے دن خود نکاح پڑھایا، نکاح کے وقت کسی شخص نے اپنے خاندان کا مہر مثل اسی ہزار ٹکے ہونے بتلایا، آپ نے فرمایا لا حول ولا قوۃ الا باللہ اور ڈیڑھ ہزار مہر پر نکاح ہوا۔(تاریخ مشائخ چشت:۳۴۴) حضرت مولانا کو مولانا محمد زکریا صاحب(شیخ الحدیث) سے جو تعلق تھا اس کا اندازہ آپ اس سے بھی کرسکتے ہیںکہ جب نکاح ہوگیا اور واپسی کا وقت آیا تو مولانا محمد زکریا صاحب(شیخ الحدیث) نے اس خیال سے کہ کاندھلہ وطن ہے پانچ سات دن یہاں رہ کر سہارنپور لوٹ جائیں گے، اہلیہ کا سہارنپور لانا لے جانا مشکل ہے، اہلیہ کو سہارنپور لیجانے سے پس وپیش کیا، حضرت مولانا نے جو یہ سنا تو فرمایا: