حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
طرز تعلیم،معمولات درس،انتظام مدرسہ حضرت مولانا ۱۳۱۴ھ میں مدرسہ مظاہر علوم میں مدرس ہوئے اور شروع ہی سے صدر مدرس کے عہدے پر فائز ہوئے ۱۳۱۴ھ سے ۱۳۳۶ھ تک پورے بائیس سال اس عہدے پر فائز رہے ،۱۳۳۶ھ سے نظامت مدرسہ کا عہدہ بھی حاصل ہوا ،اور ۱۳۳۸ھ سے سر پرستوں کی صف میں داخل ہوئے اور ہجرت تک جو ۱۳۴۴ھ میں ہوئی اس عہدہ جلیلیہ پر متمکن رہے۔اس طویل عرصہ میں آپ نے اپنی تعلیمی و تعمیری،ذہنی اور دماغی صلاحیت اس مدرسہ کی ترقی میں صرف کردی ،تادم آخر اس مدرسہ کی فکر رہی،اس مدرسہ کو اپنے گھر سے زیادہ اور مدرسین اور طلبہ کو اپنے عزیز و اقارب سے بڑھ کر سمجھا،حضرت مولانا کا ایک خاص طرز تعلیم تھا معمولات درس کے بڑے پابند تھے مدرسہ کے انتظام و انصرام میں منتظمین و ذمہ داروں سے بڑھ کر حصہ لیتے آپ کے ہاتھوں سے مدرسہ کو جو ترقی ہوئی وہ کسی اور کے ذریعہ نہیں ہوئی،طلبہ کی تعداد بڑھتی اور بڑھتی رہی،تعمیر ہوئی اور روز افزوں ہوتی رہی ،تعلیمی معیار بلند ہوا اور مثالی بن گیا ہزاروں علماء اور فضلاء اس مدرسہ سے فارغ ہوئے۔ ہم اس باب میں حضرت مولانا کی علمی ،تعمیری خدمات کا تھوڑا سا خاکہ پیش کرتے ہیں۔ابتدائی استعداد کی فکر : حضرت مولانا نے اپنے طویل تعلیمی و تدریسی تجربہ کے مطابق یہ نظریہ رکھا کہ ابتدائی استعداد کا پختہ ہونا ضروری ہے ورنہ آخر تک کمزوری باقی رہتی ہے اور بعد میں یہ کمزوری رفع ہو ہی نہیں سکتی اس لئے مظاہر علوم میں بھی آپ نے یہ طریقہ رکھا کہ مدرسہ میں ہر طالب علم اچھی استعداد لے کر داخل ہو ،مولانا عاشق الٰہی صاحب بیان کرتے ہیں: ’’عربی کے طلبہ کا دن بدن علمی ضعف آپ کو پریشان کرتا تھا کہ دورہ میں شریک ہونے والے بھی عبارت پوری صحت کے ساتھ نہیں پڑھتے اور اس کا بڑا سبب ان کی ابتدائی صرف ونحو کی کمزوری و بے توجہی تھی جس پر مزید تائید مدرسوں کے اس قانون سے ہوگئی تھی کہ شرح جامی تک وظیفہ نہ دیا جائے اور اس لئے باہر کے طلبہ بالخصوص اطراف بنگال کے جن کی ابتدائی استعداد نہایت کمزور ہوتی تھی وظیفہ کے خاطر بڑی بڑی کتابوں میں شریک ہوجاتے اور پھر انکو اپنی ابتدائی کمزوری کے دور کرنے میں شرم آنے لگتی تھی اس لئے قانون مدرسہ میں کہ بوجوہات چند در چند وہ بھی مصلحت پر مبنی تھا ،آپ نے ترمیم نہیں کی مگر ایک درجہ ابتدائی کھولا جس میں میزان سے لیکر شرح جامی تک تعلیم دی جائے اور اس کی نگرانی حضرت مولانا صدیق احمد صاحب انبٹہوی کے حوالے فرمائی کہ انکو خصوصیت سے ابتدائی صرف و نحو کے ساتھ مناسبت تھی اور اپنی طالب علمی کے زمانے سے اس کا اہتمام فرمایا کرتے تھے اس درجہ کے لئے آپنے وظائف علیحدہ مقرر کئے جو عطا کنند گان اسی مد کے لئے دیا کرتے تھے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۲۱۱)قرأت و تجوید کو اولیت : حضرت مولانا عربی تعلیم کے لئے ضروری سمجھتے تھے کہ قرآن کریم کو صحت الفاظ کے ساتھ پڑھا جائے ،آپ اسکو عربی تعلیم کی