حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حج سے واپسی کے بعد آپ نے پھر دلجمعی کے ساتھ درس وتدریس اور مدرسہ کی تعمیر وترقی میں حصہ لینا شروع کیا، اور تقریبا دو سال بعد ۱۳۲۶ھ میں کتب خانے کی بنیاد رکھی گئی جس میں مولوی رحیم بخش صاحب پریسیڈنٹ بھاولپور نے نمایاں حصہ لیا بلکہ کتب خانے کی تعمیر کے پورے اخراجات جوتین ہزار پر مشتمل تھے اپنی جیب خاص سے برداشت کئے۔ کتب خانے کی اس تعمیر میں حضرت مولانا نے بڑی دلچسپی دکھلائی اورپورے ذوق وشوق سے اس کو تعمیر کرایا اور اپنی تعمیری اور تنظیمی صلاحیت کا پوراثبوت دیا۔علالت ورخصت اور مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی کی آمد : کتب خانے کی تعمیر چل رہی تھی، حضرت مولانا نے اس سلسلے میں جو ذہنی ودماغی اور جسمانی محنت کی اس کا اثرجسم وذہن پر پڑا ہی تھا کہ سہارنپور میں موسمی بخار وبا کی شکل اختیار کرگیا، طلباء کی کثیر تعداد اور اساتذہ کی ایک جماعت اس کا شکار ہوئی، خود آپ اس میں ایسے مبتلا ہوئے کہ ۲۲ روز تک علالت کا سلسلہ رہا۔ ضعف ونقاہت اور بخارکی وجہ سے کوئی سبق بھی نہ پڑھاسکے جب آپ نے دیکھا کہ طلباء کا بہت زیادہ حرج ہوچکا ہے تو دوسرے ایسے استاذ کے انتظام کرنے کی درخواست کی جو آپ کے ساتھ شریک تدریس ہوسکے اور اس اہم عہدہ پربلانے کے لئے آپ کی دور رس اور مردم شناس نگاہ مولانا محمد یحیٰ صاحب کاندھلوی پر پڑی جو حضرت گنگوہی کے خادم خاص اور شاگرد رشید رہے تھے جن کو درس وتدریس میں ملکہ تامہ حاصل تھا اس لئے آپ نے مدرسہ کے مہتمم صاحب کو درخواست دی جس میں اپنی علالت اور دوسرے مدرس کے انتظام کے متعلق تحریر فرمایا: ’’مکرم بندہ جناب مہتمم صاحب مدفیوضکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! جناب کو معلوم ہے کہ میں ضعیف ہوگیا ہوں ، خدمت مدرسہ کے انجام دینے سے پورے وقت میں قاصرہوں، لہٰذا عرض ہے کہ اگر حضرات سرپرستان مدرسہ منظور فرمائیں تو یہ ہوسکتاہے کہ مولوی محمد یحیٰ کاندھلوی کو یہاں بلوالوں بقدر طاقت اسباق میںپڑھاؤں اور باقی ماندہ مولوی صاحب پڑھائیں ہاں اگر ہم دونوں میں سے کوئی ایک موجود نہ ہو تو پورے اسباق دوسرا پورے کرے۔ اس صورت میں مدرسہ کا حرج نہ ہوگا بلکہ نفع ہے اور اگر یہ منظور نہ ہو تو جو مستقل تجویز فرمائیں اختیار ہے۔ حررہ خلیل احمد۔ ۲۵ رمضان ۱۳۲۶ھ پنجشنبہ آپ کی اس درخواست کو مہتمم صاحب نے مدرسے کے سرپرستوں کی خدمت میں پیش کیا جس پر تینوں اکابر نے جوابات تحریر فرمائے۔ مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائپوری نے یہ عبارت تحریر فرمائی : ’’میں اس معاملے میں اس قدر عرض کرسکتاہوں کہ حضرت مولانا سلمہ سے زیادہ اس مدرسہ کا خیر خواہ اور اس کی ضرورتوں کا اندازہ کرنے والا اور کون ہے، یہ بے شک صحیح ہے کہ مولانا صاحب کا ضعف بیشک اس کا مقتضی ہے کہ کچھ سہولت ضرور ہونی چاہئے اس کی جو