حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی جو حضرت مولانا ہی سے مجاز تھے قابل ذکر ہیں۔ جتنی مدت تک یہ حضرات تبلیغ واشاعت دین کاکام کرتے رہے حضرت مولانا پوری طرح باخبر رہے اور فکر مندو پریشان اس کام کے لئے انجمن ہدایت الرشید کی تشکیل فرمائی تھی اور اس انجمن نے ان اطراف میں خصوصا علی گڑھ ومتھرا کے اطراف میں چودہ مدارس قائم کئے ہیں جن میں بیک وقت مجموعی طور پر ساڑھے تین سو لڑکوں نے قرآن شریف کی تعلیم حاصل کی، اس سلسلہ میں حضرت تھانوی اور مولانا محمد الیاس صاحب کی انتھک محنتوں اور کوششوں نے بڑا مفید کام انجام دیا۔مدرسہ مظاہر علوم میں بعض تبدیلیاں اور مبارک اضافہ : حضرت مولانا کو مدرسہ کی تعلیمی اور تعمیری ترقی کی برابر فکر رہی اور اس سلسلہ میں اسباق کی تبدیلی بھی فرمایا کرتے تھے ، جن اساتذہ کو اہل سمجھتے اور مدرسہ کے لئے مفید جانتے خواہ ان سے ذاتی تعلق ہو یا نہ ہو ان کی خدمت وترقی کی کوشش فرماتے، بعض دفعہ دوسرے اساتذہ شکوک وشبہات کا اظہار کرتے مگر آپ اس کا بالکل خیال نہ کرتے اور فرماتے: ’’جب کہ میرا معاملہ اپنے خدا سے صاف اور درست ہے تو کسی کی پرواہ نہیں ہے کہ کون کیا کہتاہے؟‘‘ حضرت مولانا کے نزدیک آپ کے شاگرد رشید اور معتمد خاص مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث مدظلہٗ میں اس سے بڑھ کر صلاحیت تھی جو وہ ابتدائی اور دوسرے درمیانی علوم میں لگا رہے تھے ،آپ کی خواہش تھی کہ حضرت شیخ کو حدیث کی کتابیں بھی پڑھانی چاھئیں اس لئے آپ نے اسی سال ۱۳۴۱ھ میں بخاری شریف کے تین پارے از تیرہ تا پندرہ تک کی تدریس حضرت شیخ کے ذمہ فرمادی اور ایک سفر پر روانہ ہوگئے ،واپسی میں پھر معلوم کیا کہ وہ پڑھانے لگے یا نہیں اس پر معلوم ہوا کہ حضرت شیخ اکابر اساتذہ کے ہوتے ہوئے انکے پڑھانے میں تکلّف کیا اور احتراض سے کام لیا،آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ’’بہت اچھا انکار کردیا تو ہماری پاپوش سے یوں چاھتے ہیں کہ ہماری خوشامد ہو۔‘‘ حضرت شیخ الحدیث جن کی عمر اس وقت ۲۶ ِسال کی تھی اور اس وقت تک مشکوٰۃ بھی نہیں پڑھائی تھی عجیب پریشانی میں پڑے،حضرت مولانا کی ناراضگی سے پریشان ہوئے اور عرض کیا : ’’حضرت توبہ توبہ مجھے تو یہ خیال ہوا کہ مدرسہ کی بڑی بدنامی ہے کہ دوسرے مدرسہ والے کیا کہیں گے کہ نو عمر لڑکے کو جس نے مشکوٰۃ بھی نہیں پڑھائی بخاری دے دی۔‘‘ حضرت کی یہ بات سن کی حضرت مولانا نے بڑے جوش سے ارشاد فرمایا : ’’نو عمر لڑکے کو میں ہی جانوں دوسرے لوگ کیا جانیں اگر کوئی الزام دے گا تو مجھے دے گا تمہیں تو نہیں دے گا۔‘‘ اس سوال و جواب کے بعد حضرت شیخ نے یہ درس حدیث قبول کرلیا اور قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید کے مطابق وہی ہوا جس کو حضرت مولانا کی فراست ایمانی سمجھ رہی تھی نہ کوئی شورش ہوئی نہ کسی کی طرف سے کوئی اعتراض ہوا پورا سال اطمینان سے گذرا اور اگلے سال حضرت شیخ کو مشکوٰٰۃ کا سبق بھی مل گیا۔