حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مدرسہ مظاہرعلوم کا دارالطلبہ جس میں درسگاہیں بھی ہیں آپ کے ذوق وشوق، دلچسپی وانہماک کی وجہ سے ایک خوبصورت ومناسب عمارت کی شکل میں تعمیر ہوچکا تھا، آپ اس کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوکر معماروں سے کام لیتے اور اپنے ہی بنائے ہوئے نقشہ کے مطابق تعمیر کراتے تھے، مدرسہ کے غربی جانب ایک افتادہ زمین پڑی ہوئی تھی اور مدرسہ کے لئے ایک مسجد کی ضرورت تھی، آپ کی توجہ دلانے سے چند اہل خیر حضرات نے ۱۳۳۱ھ میں وہ زمین خرید کر مدرسہ کو وقف کردی اور اسی سال سے مسجد کی تعمیر شروع کردی گئی اور ایک سال کے اندر ۱۷ ربیع الاول ۱۳۳۲ھ میں جمعہ کے بابرکت دن مسجد کا افتتاح ہوا ہجوم کی کثرت کی وجہ سے دارالطلبہ کی چھتوں پر فرش بچھایاگیا، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ نے نماز جمعہ پڑھائی اور عصرتک وعظ فرمایا۔ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نے جس طرح دارالطلبہ کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اسی طرح مسجد کی تعمیر میں اپنے فطری تعمیری ذوق اور انہماک کا مظاہرہ فرمایا۔ کلمۃ حق عند سلطان جائر: ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۴ء کا سال بعض حیثیتوں سے بڑ اانقلاب انگیز تھا اور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے تشویشناک پہلی جنگ عظیم جاری تھی اور ترکی، حکومت برطانیہ سے نبرد آزما ہورہاتھا، اس وقت حجاز ترکی کے ماتحت تھا اور ہندوستان برطانیہ کے، پورے عالم اسلام پر بے چینی اور اضطراب کی فضا چھائی ہوئی تھی ، ہندوستانی مسلمانوں کو برطانیہ جبرا ترکی کے خلاف ابھار رہاتھا اور اس معاملہ میں ہندوستان کے مسلمان بڑی نازک پوزیشن میں تھے، اس سلسلہ میں ترکی کے خلاف حضرت مولانا سے بھی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، آپ نے جرأت وہمت اور عزیمت سے کام لے کر انکار فرمادیا، جب حکومت کی طرف سے زور ڈالاگیا تو آپ نے ہندوستان چھوڑدینے کو ترجیح دی مگر ضمیر اور ایمان کے خلاف کچھ کہنے اور کرنے سے انکار کردیا مولانا عاشق الٰہی میرٹھی لکھتے ہیں: ’’دہلی سے آپ کے پاس ایک استفتاء آیا تھا جس میں مسلمانان ہندکا ترکی سے جنگ کرنا جائز لکھ کر حضرت سے تصویب چاہی گئی، آپ نے دستخط کرنے سے صاف انکار کردیا اور آپ نے خاص لوگوں سے کہا کہ اگر یہ دھمکی صحیح ہے اور گورنمنٹ مجبور کرتی ہے کہ اسلام کے خلاف فتویٰ دیں تو ہندوستان میں رہنا جائز نہیں اور ہجرت کرنا فرض ہے، اپنے اس خیال کو آپ نے شائع تو نہیں کیا مگر خود ارادہ پختہ کرلیا کہ میں ایسی حالت میں ہندوستان کو دارالامن نہیں سمجھتا۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۳۶۵)ہجرت کا ارادہ اور ایک طویل مشورہ : اس استفتا نے آپ کے ضمیر اور ایمان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور آپ کے دل میں انگریزوں کے خلاف جو جذبات چنگاری بن کر سلگ رہے تھے وہ موجودہ طرز عمل سے شعلہ جوالہ بن گئے اور شب وروز اضطراب وبے چینی رہنے لگی حضرت مولانا محمود حسین صاحب سے جو ترکی حکومت کی موافقت میں انگریزوں کے خلاف شمشیر بے نیام بنے ہوئے تھے رابطہ قائم رکھا ادھر آپ نے ہندوستان چھوڑدینے کا پختہ ارادہ کیا ادھر مولانا محمود حسن صاحب سے مشورے کرنے لگے۔