حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
’’زمانہ اس قدر بدامنی کا تھا کہ حج سے پہلے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور حج کے بعد تو بہت ہی قلیل ، نہ جانیں محفوظ تھیں نہ مال، شریف حسین کی حکومت کا کوئی اثر مکہ کی چہار دیواری سے باہر نہ تھا، قتل وغارت عام تھی مدینہ پاک میںصرف تین دن قیام کی اجازت تھی اس سے زائد اگر کوئی ٹھہرے تو فی یوم ایک گنی(اشرفی) اپنے بدو کو دے بشرطیکہ وہ قیام پر راضی ہو، ہم چند خدام حضرت قدس سرہٗ کی برکت سے اور اللہ کے فضل وانعام سے انہیں خطرات میں اولا سمندر کے کنارے کنارے اور اس کے بعد جبل غائز کی گھاٹیوں میں چھپتے ہوئے مدینہ پاک حاضر ہوئے۔‘‘ رفقاء کے مدینہ منورہ جانے کے بعد حضرت مولانا مکہ مکرمہ میں ہی مقیم رہے لیکن اس حال میں کہ ہر وقت گرفت کا خوف اور فتنہ وفساد ہونے کا اندیشہ اس سلسلے کا ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ حضرت مولانا انتہائی پریشان ہوئے، مولانا عاشق الٰہی صاحب میرٹھی لکھتے ہیں: ’’ایک دن حرم شریف میں نماز کا سلام پھیرا اور ایک شخص نے کہ نہ معلوم مجنون یا مغلوب الحال تھا شور مچانا شروع کیا قیامت ٹوٹے اور آسمان پھٹے اس حکومت پر کہ مولوی خلیل احمد جیسے محترم مقتدی ہوں اور یہ ایسا اور ویسا شخص امام بنے وغیرہ وغیرہ جو منہ میں آیا کہا اس شخص کے تو اگلے دن مرنے کی اطلاع ملی اور حضرت کے متعلق اندیشہ ہوا کہ شریف کو تو سب اطلاع مل چکی ہے، عجب نہیں آپ پر بھی ہاتھ صاف ہو آپ کو یہ بھی گورا نہ تھا کہ مسلمان حاکم کی شکایت انگریزی قنصل سے کرکے پناہ لیں اور نہ سکون سے رہنا نصیب تھا کہ خداجانے اس کے بعد کیا فتنہ برپاہو۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۳۶۸) حضرت مولانا کے رفقاء آخری ذی قعدہ تک مدینہ منورہ میں رہے اور آخری ذی قعدہ کو روانہ ہوکر ۴ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے اور حضرت مولانا سے ملاقات کی ، مولانا محب الدین کے اصرار کے باوجود حضرت مولانا محرم ۳۹ھ تک مقیم رہے اور محرم کے دوسرے عشرے ہی میں مکہ مکرمہ سے چل کرہندوستان پہنچے اور ۸صفر ۱۳۳۹ھ کو سہارنپور تشریف لائے۔امروہہ میں شیعہ سنی مناظرہ اور شیخ الہند کی وفات : ربیع الاول ۱۳۳۹ھ کو مروہہ میں شیعہ سنی مناظرہ طے ہوگیا اور یہ مناظرہ شیعوں کے اصرار پر ہوا اس میں سہارنپور سے حضرت مولانا اور لکھنؤ سے مولانا عبدالشکور صاحب فاروقی پہنچے، ان دونوں کے پہنچنے پر فریق مخالف کی خواہش ہوئی کہ مناظرہ نہ ہو،اور اس نے دہلی سے مولانا محمد علی صاحب جوہر کو بلاکر مناظرہ کے التواء کی کوشش کی، حضرت مولانا کا اصرار تھا کہ جب مناظرہ طے ہوگیا ہے تو ضرور ہوناچاہئے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب جو اس مناظرہ کے عینی شاہد ہیں اور حضرت مولانا خلیل احمدصاحب نوراللہ مرقدہٗ کے ہمرکاب تھے اس مناظرہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: ’’شیعوں نے بہت زور شور سے مناظرہ کا چیلنج دیا اور جب ہر دو حضرات بالا امروہہ پہنچ گئے جس کی ان کو توقع نہیں تھی تو بہت گھبرائے اور (مولانا) محمد علی کو بلاکر جلسہ کے التواء کی تقریریں خوب کرائیں کہ اتحاد کا زمانہ ہے افتراق کا نہیں۔‘‘