حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ذکاوت حس اور موجودہ تعلیم سے بے اطمینانی : باوجود اس کے کہ آپ بہت کم عمر تھے اور سن شعور کو نہیں پہنچے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے ہم عمر بچوں کے بر خلاف آپ کو ذکاوت، ذہانت اور عقل وتمیز کا وافرحصہ عطا فرمایا تھا کہ آپ کو سات آٹھ سال کی عمر ہی سے اپنی بے ترتیب تعلیم سے بے اطمینانی پیدا ہونے لگی تھی۔ ۱۸۵۷ء کے ہنگامے کے نتیجے میں اس دیار کے ہر قصبے کے شرفاء وعلماء پریشانی میں پڑے ہوئے تھے اور گرفتاریوں ، روپوشیوں کا زمانہ تھا، آپ کے ایک رشتہ دار جو آپ کے چچا شاہ حبیب محمد صاحب کے خسر تھے اور مولانا صدیق احمد صاحب کے نانا یعنی شاہ حسن عسکری اس داروگیر سے بچنے کے لئے آپ کے والد اور چچا کے گھر میں روپوش ہوئے، پورا گھرانے کا گھرانہ پریشانی اور مصیبت کا شکار ہوا، آپ کے والد ماجد شاہ مجید علی اور ان کے سارے بھائی گرفتار ہوگئے ، اس گرفتاری کا اثر آپ کے معصوم دل ودماغ پر جو پڑا، اس نے آپ کو اور زیادہ ذکی الحس بنادیا اور علم کی طلب آپ کو اور زیادہ ستانے لگی، آپ نے اپنی بے چینی کااظہار دبی زبان سے اپنے سرپرستوں اور گھر کے بزرگوں سے کیا، آپ کے والد ماجد اورچچاصاحبان گرفتاری سے آزاد ہوئے اور سکون کے دن میسر آئے توآپ نے اس خیال کااظہار کیا کہ آپ کو باقاعدہ تعلیم دلائی جائے۔گوالیار میں : حضرت مولانا نے اپنے وطن اور نانوتہ میں رہ کر اردو کی کئی کتابیں پڑھ لیں اور قرآن شریف ختم کرلیا، چند دنوں کے بعد کسی موقع پر آپ کے چچا مولانا انصار علی صاحب جو ریاست گوالیار میں صدرالصدور تھے اپنے وطن تشریف لائے تھے ان کو اپنے بھتیجے سے باپ کی طرح محبت اور تعلق تھا جب انہوں نے آپ کی بے ترتیب تعلیم اور وطن کا لاحاصل قیام، آپ کا شوق علم اور قاعدے سے تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی بے اطمینانی واضطراب دیکھا تو آپ کی والدہ ماجدہ سے اپنے ساتھ گوالیار لے جانے کی اجازت چاہی، آپ کی والدہ کو آپ سے بے انتہا محبت تھی۔ ایک دن کے لئے بھی آنکھوں سے اوجھل ہونا پسند نہ کرتی تھیں لیکن ہ دیکھ کر آپ کا وقت ضائع ہورہا ہے چاروناچار چچا کے ساتھ جانے کی اجازت دیدی، آپ اپنی والدہ سے کس طرح جدا ہوئے، دھن کو کس طرح چھوڑا، اور تعلیم کے شوق میں اس کم عمری میں اتنے دور دراز مقام کا کس کیفیت کے ساتھ سفر کیا وہ خود آپ کی زبانی سنئے فرماتے ہیں: ’’جس وقت میں اپنا چچا کے ساتھ بہل میں سوار ہوکر بقصد گوالیار چلاہوں تو میری عجیب کیفیت تھی، کبھی وطن کاچھوٹنا ،والدہ کا فراق اور اقرباء وہمجولیوں سے جدا ہونا اثر ڈالتا اور مجھ کو پریشان بنادیتا تھا اور کبھی وطن میں تعلیم کی بدنظمی اورحصول علم میں اپنی ناکامی