حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آپ بارہا فرمایا کرتے تھے : ’’اگرچہ میں اس سرزمین کے قابل تو نہیں مگر کیا عجیب ہے کہ قبول کر لیا جاؤں اور قدرت کو کیا مشکل ہے کہ وہ اہلیت عطافرمادے۔‘‘(تاریخ مظاہر جلد دوم۷۱) ۱۳۴۵ھ کا حج آپ نے اسی لئے نہیں کیا کہ اولاً معذور ہورہے تھے اور اب حج آپ پر فرض نہ تھا کہ سات حج ادا فرماچکے تھے اس نفل حج کے لئے مدینہ منورہ کو چھوڑنا نہیں چاھتے تھے اس لئے رفقاء و خدام کو توبھیج دیااور خود مدینہ منورہ میں مقیم رہے اور شب و روز آپ کے اس حال میں گزرنے لگے کہ لکھنے والا قلم لکھتا ہے اور مشاہدہ کرنے والا گواہی دیتا ہے کہ : ’’شوق لقا کہتا تھا جلد وہ دن آئے جس میں قفس عنصری کا جال ٹوٹے اور ادب کہتا تھا کہ چپ رہو سنت الہیہ کے غلام بنے ہوئے کام کئے جاؤ یہ دن کچھ عجیب حسرت اور مسرت سے مخلوط گزر رہے تھے کہ ان خوابوں کا اور رویائے مبشرات کا خیال آتا جو عرصہ سے بار بار دیکھ رہے تھے تو امید بڑھتی تھی کہ ضرور یہاں کی مٹی میں ملنا نصیب ہوگا اور شہنشاہ کی بے نیازی و جلالت شان پر نظر جاتی تھی تو خوف ہوتا تھا کہ دیکھئے کیا مقدر ہے باامید وصال حقیقی شادماں تھے تو خوف قطعیت و اند یشہ ہجر سے ترساں و لرزاں : زجان دادن تھی ترسم من اے جان ازیں ترسم کہ از تو دور مانم (تذکرۃ الخلیل:۴۵۳) حج کے بعد حضرت مولانا کے خدام اور رفقاء کا قافلہ ہندوستان روانہ ہوگیا اور ۷صفر ۱۹۴۶ھ تک سہارنپور پہنچ گیا اور حضرت مولانا مدینہ منورہ میں مقیم رہے جتنا جتنا وقت گزرتا تھا آپ کی بے چینی اور تڑپ میں اضافہ ہوتا جاتا تھا ۔آستانہ نبوی پر حاضری بڑھ گئی تھی اور خاک طیبہ میں آسودہ ہونے کا یقین بڑھتا جارہا تھا ،ہر وقت اسی خیال اسی تمنا ،اسی کی آرزو رہتی: ماہر چہ خواندہ ایم فرموش کردہ ایم الاّ حدیث یار کہ تکرار می کنیمزندگی کا آخری مکتوب : حضرت مولانا کو مدرسہ مظاہر علوم سے اتنی زیادہ محبت اور تعلق تھا کہ آخری زندگی تک اس کی ترقی کی فکر رہی،حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کو جب ذیقعدہ ۴۵ھ میں رخصت کیا تو ان کو شیخ الحدیث کا خطاب فرمایا اور مدرسہ کا مشیرو شیخ بنایااور ۱۳ِربیع الثانی ۴۶ھ کو مولانا سید احمد فیض آبادی سے ایک تحریر لکھواکر مدرسہ بھجوائی جس میں مدرسہ کے انتظامی معاملات اور داخلی و خارجی امور کے متعلق تفصیلی ہدایات درج تھیں اسی میں حضرت شیخ کے متعلق حسب ذیل عبارت تھی: ’’مولوی محمد زکریا صاحب کاندھلوی واپس ہوتے ہیں ،میری رائے میں انکو باضافہ تنخواہ شیخ الحدیث مقرر کیا جائے مدرسہ میں کوئی مدرس ایسا نہیں ہے کہ جسکو حدیث کے ساتھ مناسبت مولوی زکریا کے برابر ہو علاوہ شیخ الحدیث ہونے کے ان کو مددگار یا مشیر بھی