حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سکندر آباد سے واپسی پر اپنے وطن میں آپ نے قیام فرمایا اور اپنے بزرگوں کی خدمت میں آنے جانے کا سلسلہ جاری رکھا، کبھی اپنے ماموں مولانا محمد یعقوب صاحب کی خدمت میں تشریف لے جاتے تو کبھی حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتوی کی خدمت میں، حضرت گنگوہی کی خدمت میں تو بار بار حاضر ہوتے اور مستفید ہوتے۔ شوال ۱۲۹۴ھ میں آپ کے بزرگوں کا ایک قافلہ عازم بیت اللہ ہوا۔ ان بزرگوں میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ،مولانا رفیع الدین صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند اور شیخ الہند مولانامحمد حسن صاحب تھے یہ ایک ایسا مبارک قافلہ تھا جس کی روانگی سن کر سینکڑوں آدمی ساتھ ہوگئے۔ آپ کے دل میں بھی ہم رکابی کی تمنا ہوئی اور آپ ان بزرگوں کے ساتھ جانے کے لئے بیتاب ہوگئے مگر آپ چند ہی مہینہ پہلے حج کرکے واپس ہوئے تھے اور دوبارہ سفر میں جانے کازاد راہ بھی نہ تھا ا سکے باوجود حضرت گنگوہی قدس سرہ سے ساتھ چلنے کی اجازت چاہی مگر اجازت نہ ملی اور بادل نخواستہ رک گئے لیکن آپ کے نہ جانے اور اس مبارک قافلہ کی ہمرکابی نہ ہو نے نے دل کا کام کردیا اور یہ مدت جوان اکابر کی جدائی میں گزری حزن وملال اورصدمہ میں گزری آپ وطن ہی میں رہے نہ کہیں گئے نہ کوئی ملازمت کی، جب اکابر کا قافلہ ربیع الاول ۱۲۹۵ھ میں واپس آیا تو آپ کو اطمینان وسکون ہوا، اور جمعیت خاطر نصیب ہوئی۔بھاولپور سے ایک مدرس کی خواہش اور آپ کا انتخاب : آپ کے ماموںحضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی جب سفر جج سے واپس ہوکر دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے تو جو خطوط آپ کی غیر موجودگی میں آئے تھے ملے، ان خطوط میں ایک خط مولوی شمس الدین صاحب چیف جج بھاولپور کا بھی تھا جس میں ایک ایسے قابل مدرس کی خواہش کی گئی تھی جو بے شمار اوصاف کا مالک ہو ان صفات میں حسب ذیل صفات کی تعیین تھی، نوجوان ہو، نہایت ذکی ہو، ہرفن میں ماہر ہو، وجیہہ ہو، خلیق اور منتظم ہو، اپنے علم پر عامل اورمجسم اصلاح ہو کہ صورت سے نیک روی کا سبق لیاجاسکے یہ اور اس طرح کے اور بہت سے اوصاف تحریر کئے تھے، حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نے اس درخواست کو دیکھا اور غور کیا، ان کی نظر انتخاب آپ پر پڑی اور آپ کو حکم دیا کہ بھاولپور تشریف لے جائیں چونکہ مولوی شمس الدین ایک علم دوست بزرگ تھے،دین اور علمائے دین سے تعلق رکھنے والے عقیدے میں پختہ اور اہل دیوبند سے تعلق رکھتے تھے، ان کی خواہش تھی کہ ان بچوں کو کوئی صحیح العقیدہ عالم جو کامل استعداد بھی ہو اور صاحب نظر بھی تعلیم دے، اور ان کی تربیت کرے اس لئے انہوں نے حضرت مولانامحمدیعقوب صاحب کی خدمت میں اپنی درخواست بھیجی۔