حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چوتھا باب حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے قدموں میں ۱۲۸۸ھ تا ۱۳۲۳ھ (۳۵ سال) حضرت مولانا نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں اور ہوش سنبھالا وہ ماحول خالص دینی، علمی اور روحانی تھا، کہیں خانقاہیں آباد تھیں تو کہیں دینی مدارس قائم تھے، گاؤں گاؤں ، شہر شہر، اللہ کے نیک بندے اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے طالبین سلوک کی تعلیم وتربیت کررہے تھے، ان روحانی مرکزوں میں سب سے بڑا مرکز اور ان مبارک خانقاہوں میں سب سے آباد اورمعمور خانقاہ گنگوہ میں تھی، اس خانقاہ کی زینت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی ذات والا صفات تھی جو مرجع خاص وعام بنی ہوئی تھی، اور دور دور سے علماء اور ذاکرین حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوکر سلوک ومعرفت کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔سب سے پہلی توجہ : حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری کی عمر جب سات، آٹھ سال کی تھی اور وہ اپنے چچا کی خدمت میں رہ کر گوالیار میں تعلیم حاصل کررہے تھے تو تعلیم کے دوران ایک مرتبہ آپ کے چچا نے آپ سے فرمایا، وہ خود مولانا کی زبان سے سنئے: ’’طالب علمی کے زمانے میں حضرت ؒ کے ساتھ ایک معمولی واقفیت تھی اور ہم صرف یہ سمجھتے تھے ایک مقدس عالم ہیں، ایک روز میرے چچا مولوی انصار علی نے جب کہ میں ان کی خدمت میں پڑھتا تھا فرمایا کہ پڑھنے کے بعد مولوی صاحب (یعنی حضرت مولانا رشید احمد صاحب) سے تصوف حاصل کیجیو۔‘‘ (تذکرۃ الرشید حصہ اول ۱۵۷) یہ حضرت مولانا کی زندگی میں وہ نقش اول ہے جوآپ کے چچا نے آپ کے ذہن میں بٹھایا اور آپ کا ذہن حضرت گنگوہی کی طرف متوجہ ہوا، اور یہیں سے آپ کے دل میں علم باطن کے حصول کابھی شوق پیدا ہوا لیکن ابھی آپ کو علم ظاہرکی تکمیل کا انتظار کرنا تھا، اس لئے آپ نے پانچ چھ سال علم ظاہر کے حاصل کرنے میں گزارے اور اس طرح آپ کی عمر بارہ، تیرہ سال کی ہوگئی۔