حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خدام کو کردیا کہ: ’’مجھے اپنے یہاں کے قیام کا یقین ہوگیا لہذا میں نے ہجرت کی نیت کرلی۔‘‘ اس نیت کے بعد آپ مہاجر مدینہ ہوگئے اورآپ کی صحبت و خدمت سے اہل ہندوستان محروم ہوگئے وہ آفتاب علم و عمل جو ہندوستان میں مدتوں تک چلتا رہا اور اپنی روشنی سے کشمیر سے لے کر بنگال تک اور پشاور سے لیکر مدارس تک منور کرتا رہا اب جوارنبوی کے پرنور سایہ سے اپنی روشنی کو دوبالا کرنے لگا۔عزیز ترین مشغلہ : مدینہ منورہ میں آپ کا عزیزترین مشغلہ احادیث رسول اﷲﷺ کا تھا بذل المجہودکی تکمیل کی طرف پوری توجہ مبذول کردی ۔اس عزیز ترین مشغلہ میں آپ پوری طرح منہمک ہوگئے اور آپ کی طبعیت خوب لگی چنانچہ تین ماہ کے اندر ۱۲۵صفحات کی شرح وجود میں آئی جو کتاب الجنائز سے شروع ہوکر کتاب الاطعمہ تک ۱۱ربیع الثانی ۲۵ھ کو ختم ہوئی حضرت شیخ فرماتے ہیں: ’’حضرت نور اﷲ مرقدہ مدینہ پاک پہنچ کر بذل المجہود کی تکمیل میں مشغول ہوگئے یہاں کے قیام میں بذل المجہودکی چوتھی جلد کتاب الجنائر تک ہوئی تھی وہاں پہنچ کر کتاب الجنائر سے املا شروع فرمایا چنانچہ جو مسودہ بذل کا مدینہ پاک میں شروع کیا کیا گیا اس کے شروع میں لکھا ہوا ہے’’۱۳ محرم ۲۵ھ یوم السبت فی المدینۃ المنورہ‘‘حضرت قدس سرہ کی یکسوئی اور مدینہ پاک کی برکات کہ تقریباً ساڑھے سات ماہ میں ڈیڑھ جلد کی تکمیل ہوگئی۔(مقدمہ کمال الیشم ۳۹) بذل کی تکمیل پر جو ۲۱شعبان ۱۳۴۵ھ کو مکمل ہوئی آپ نے علماء مدینہ کی بڑی وسیع دعوت فرمائی ا ور دعوت نامہ طبع کراکے علماء و مشائخ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ بذل کی تکمیل کے بعد اس جگہ وفاء الوفاء وغیرہ متفرق کتابوں میں صبح کا وقت خرچ ہوتا جو مدینہ منورہ کے قیام میں حضرت مولانا کی خدمت میں جمع ہوگئی تھیں پھر رمضان المبارک آگیا اور معمولات میں تبدیلی ہوگئی۔مدینہ منورہ میں شب و روز کے معمولات : حضرت مولانا کے شب و روز کے معمولات اتنے مشغول اور پابند اوقات تھے کہ کوئی لمحہ بیکار نہ جاتا تھا۔ حضرت شیخ مدظلہ العالی جو آپ کے قیام مدینہ میں عرصہ دراز تک خدمت میں رہے تھے آپ کے معمولات اس طرح تحریر فرماتے ہیں: ’’اشراق کی نماز کے بعد حضرت نوراﷲ مرقدہٗ اس دار التالیف میں تشریف لے جاتے اور ہندوستانی تقریباً ۱۱ بجے تک نہایت یکسوئی کے ساتھ بذل المجہود کا املا کراتے اور پھر اسی کمرے میں کھانا تناول فرماتے حضرت قدس سرہٗ کے مکان سے حضرت کا کھانا چلاجاتا اور اوپر سے حضرت مولانا سید احمد صاحب نوراﷲ مرقدہ کاکھانا آجاتا یہ سیاہ کار بھی شریک دسترخوان تھا جس کو دونوں اکابر اپنا اپنا مہمان سمجھتے تھے جس کا اندازہ اس سے ہوا کہ اس یکسا لہ قیام میں صرف ایک مرتبہ بخار کی شدت کی وجہ سے ناکا رہ شریک دسترخوان نہ