حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بہت ناموافق ہیں اور گرفتاری کا اندیشہ ہے اس لئے ہندوستان واپس ہوجانا چاہئے مگر طائف میں شیخ الہند ایسے محصور ہوگئے کہ مکہ مکرمہ واپسی ناممکن ہوگئی، شریف حسین کی فوجیں انگریزوں کی حمایت میں پورے ملک میں حملہ آور ہورہی تھیں اور طائف پر گولہ باری ہورہی تھی، حضرت مولانا نے شیخ الہند کا انتظار فرمایا اورجب یہ دیکھا کہ شیخ الہند کی واپسی کا کوئی اندازہ نہیں ہے اور انتشار وطوائف الملوکی کا دور دورہ ہے تو جب مشورہ مکہ مکرمہ سے ہندوستان آنے کے لئے جدہ تشریف لے گئے مگر جہاز کی روانگی میں کچھ دیر تھی اس لئے جدہ میں قیام فرمایا۔ ۱۰ شوال کو شیخ الہند کسی نہ کسی طرح طائف سے نکل کر مکہ مکرمہ پہنچے یہاں پہنچ کر اطلاع ملی کہ حضرت مولانا جدہ میں مقیم ہیں تو حضرت مولانا اپنے رفقاء سے ملنے کی خاطر جو اسی جہاز سے ہندوستان سفر کرنے والے تھے جدہ تشریف لے گئے، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی جو شیخ الہند کے ہمراہ تھے، تحریر کرتے ہیں: ’’چونکہ کوئی خبر حضرت شیخ الہند کے طائف سے واپس ہونے کی نہیں تھی اس لئے یہ سب حضرات بغیر انتظار اور بلا ملاقات روانہ ہوگئے تھے حضرت شیخ الہند نے ضروری سمجھا کہ ان سے وداعی ملاقات کی جائے اس لئے حضرت شیخ الہند بھی جدہ روانہ ہوگئے جب جہاز سامان وغیرہ اتار کر اور اپنی ضروریات پوری کرکے تیار ہوگیا تو جانے والے حضرات ٹکٹ لے کر سوار ہوگئے، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کے ساتھ ان کی اہلیہ محترمہ اور حاجی مقبول احمد صاحب تھے اور حضرت ؒ کے ساتھیوں میں سے مولانا ہادی حسن صاحب خان جہاں پوری اور حاجی شاہ بخش صاحب سندھی تھے ان سبھوں کو حضرت شیخ الہند ؒ نے ساحل(پورٹ) تک رخصت کیا اور جہاز روانہ ہوگیا۔‘‘(نقش حیات ۲۲۳) اس ملاقات کے بعد شیخ الہند مکہ مکرمہ واپس تشریف لائے ،مگر کچھ ہی عرصہ کے بعد ان کو گرفتار کرلیا گیا اور مالٹا بھیج دیا گیا۔ حضرت مولانا کی واپسی کے متعلق حضرت مولانا محمد زکریا صاحب شیخ الحدیث مدظلہٗ تحریر فرماتے ہیں: ’’ان حضرات اکابر کے ارادے تو بہت تھے مگر مقدرات کہ پورے نہ ہوسکے اور وہاں شریف حسین کی زیادتیوں کی وجہ سے حضرت اقدس سہارنپوری نوراللہ مرقدہ کو قبل الحج ۱۳۲۴ھ میں واپس آنا پڑا اور حضرت اقدس شیخ الہند نوراللہ مرقدہ اسیر بناکر مالٹا بھیج دئیے گئے۔‘‘آپ کی واپسی پر استقبال کی تیاری اور مولانا محمد یحیٰ کاندھلوی کا انتقال : حضرت مولانا جب حج کو جانے لگے تو اپنی غیر موجودگی میں مولانا محمد یحی صاحب کے سپرد تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مدرسہ کی بعض انتظامی ذمہ داریاں بھی کی تھیں اور مولانا کاندھلوی نے ان ذمہ داریوںکو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ نباہا، جب آپ حجاز واپس ہوئے اور اس واپسی کی خبر مدرسہ میں پہنچی تو سب ہی کو خوشی ہوئی مگر مولانا محمد یحیٰ صاحب کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی لیکن تقدیر الٰہی کے آگے کسی کا بس نہیں کہ ادھر مولانا محمد یحیٰ صاحب آپ کی آمد کا انتظار کررہے تھے اور صبح شام گن رہے تھے ادھر اللہ کی طرف سے بلاوا آنے والا تھا،۱۰ ذی قعدہ ۱۳۳۴ھ کو جس دن حضرت مولانا جہاز سے بمبئی اترے اسی دن اچانک