حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کاحال سنو کہ فرض نہیں کہ خواہ مخواہ بے کلی ہووے، ہاں بھلے کام کی دل میں خواہش ہے لیکن ضعف جسم سے ضعف ہمت بھی ہے، اس واسطے کچھ نہیں کہہ سکتا اگر اس وقت پر ہمت ہوجاوے اور سامان بھی مقدر ہووے تو کیا عجب ہے ورنہ کچھ صورت نہیں، لہٰذا اس وقت تک عزم نہیں غلط افواہ مشہور ہے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۱۰۶) حضرت گنگوہی ؒ کے اس مکتوب کے بعد بھی حضرت مولانا امید رکھے رہے کہ حضرت گنگوہی ؒ کی بیعت نصیب ہوگی اور یہ سفر مبارک اپنے ہی بزرگوں کی معیت سے اور مبارک ہوگا، اس لئے بار بار حضرت گنگوہی کو لکھا کہ کاش حضرت کا عزم پختہ ہوجائے اور ہم رکابی نصیب ہومگر حضرت مولانا کی خواہش اور تمنا کے باوجود حضرت گنگوہی کا ارادہ پختہ نہ ہوسکا۔ حضرت گنگوہی اپنے التواء سفر کو ان الفاظ میں تحریر کرتے ہیں: ’’اگرچہ پہلے عزم سفر میں تردد وشک کے درجے کا تھا مگر اب اپنی کیفیت غالیہ پر غلبہ عدم سفر کا معلوم ہوتاہے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل: ۱۰۷) حضرت گنگوہی ؒ کے اس والا نامہ کے بعد حضرت گنگوہی کی ہمرکابی سے مایوس ہوگئے لیکن حج وزیارت کے شوق میں اپنا ارادہ قائم رکھا اور پھر ۲۵ شوال ۱۲۹۷ھ مطابق یکم اکتوبر ۱۸۸۰ء کو بھاولپور سے روانہ ہوئے، آپ کی غیبوبت میں آپ کی جگہ حضرت گنگوہی کے بھانجے مولوی الطاف الرحمن صاحب نے درس وتدریس کا کام انجام دینا شروع کیا مگر انکو حضرت گنگوہی سے اتنی محبت تھی کہ ان سے جدا ہونا کسی حال میں گوارا نہ تھا اس لئے وہ بھاولپور میں زیادہ دنوں نہ رہ سکے، آخر کار حضرت مولانا کے چچا زاد بھائی مولوی انوار احمد صاحب انبہٹوی بھاولپور گئے اور جب تک حضرت مولانا حج کے سفر میں رہے وہ ان کی جگہ پڑھاتے رہے۔حضرت گنگوہی کاحضرت حاجی صاحب کو سلام اور حاضر نہ ہونے کی معذرت : جب حضرت مولانا حج کو تشریف لے جانے لگے تو حضرت گنگوہی نے مقامات دعا پر دعا کرنے اور حضرت حاجی صاحب سے حاضر نہ ہونے کی معذرت کرنے کاحکم فرمایا، وہ تحریر کرتے ہیں: ’’بدعا ئے خیر مجھے بھی یاد کرنا مواقع اجابت میں اگریاد آجاؤں اور حضرت مرشدنا سے جو جو کیفیات مشہور ومسموع تم کو ہوویں بیان کرکے عذر حاضر نہ ہونے کا کردینا، اگر زندگی رہی تو سال آئندہ دیکھنے کی کیا پیش آوے، مقدر سے سب مجبور ہیں تدبیر کیا پیش رفت ہوتی ہے۔‘‘ (تذکرۃ الخلیل:۱۰۸)حضرت حاجی امداداللہ صاحب کی خدمت میں : حضرت مولانا کو اگر اس کارنج تھا کہ اس مبارک سفر میں حضرت گنگوہی کی معیت نصیب نہ ہوسکی تو اس کی بھی خوشی تھی کہ مکہ مکرمہ میںحضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی کی شفیق ذات موجود ہے جن کی صحبت وخدمت نصیب ہوگی،