حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
یہ بلبلوں کا صبا مشہد مقدس ہے قدم سنبھال کے رکھیو یہ تیرا باغ نہیں‘‘ اللہ کے کچھ مخلص بندوں نے ایک مخلص بندے کے ہاتھ پر اپنے مالک سے اس کی رضا، اس کے نام کی بلندی اور اس کے دین کی فتح مندی کے لئے آخری سانس تک کوشش کرنے اور اس راہ میں اپنا سب کچھ مٹادینے کا عہد کیاتھا، جب تک ان کے دم میں دم رہا، اس راہ میں سرگرم رہے بالآخر اپنے خون شہادت سے اس پیمانۂ وفاپر آخری مہر لگادی، یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہے کہ ۲۴ذوالقعدہ کا دن گزار کر جورات آئی وہ پہلی رات تھی، اس رات کو وہ سبکدوش وسبک سر ہوکر میٹھی نیند سوئے۔‘‘ (سیرت سید احمد شہید رحمہ االلّٰہ تعالیٰ جلددوم ۴۵۹) ان سبک سر ہونے والوں میں جہاں پورے ہندوستان کے خوش قسمت مردان خدا تھے وہیں ضلع سہارنپور ومظفر نگر کے وہ بلند بخت حضرات بھی تھے جنہوں نے فداکاری اور جاں نثاری کا پورا ثبوت دیا اور اپنے سر کٹا کر راہ خدا میں شہادت کا درجہ حاصل کیا۔ ؎ جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے پھر اس واقعہ شہادت کے بعد اس جہاد کے علم کو’’علماء صادق پور‘‘ نے سنبھالا، اور اس تحریک جہاد کو مولانا سیدنصیرالدین دہلوی نے تیز سے تیز ترکیا اور مولانا شاہ محمد اسحق اور مولانا شاہ محمد یعقوب نے اس کی قیادت کی اور اخیر میں حضرت مولانا خلیل احمدصاحب کے جد مادری’’استاذالعلماء‘‘ مولانا مملوک علی صاحب نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے رفقاء اور تلامذہ کے ساتھ اس کو زندہ وتابندہ رکھا۔۱۸۵۷ھ کاانقلاب : حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی عمر تقریبا چار سال کی تھی کہ ۱۸۵۷ھ میں ہندوستان کے سارے باشندوں کی طرف سے انگریزوں کے خلاف بغاوت ہوئی، اس بغاوت کی قیادت علماء ہی کررہے تھے، یہ بغاوت ناکام ہوئی تو انگریزوں نے عام باشندوں اور اس سے زیادہ مسلمانوں اور سب سے بڑھ کر علماء سے انتقام لیناشروع کیا، اور ایسی ہلاکت خیزی اور تباہی مچائی جس نے چنگیز وہلاکو کی یاد تازہ کردی، فوجوں کو تین روز تک دہلی کو لوٹنے کی اجازت دے دی گئی،مسلمان خاص طورپر اس کا نشانہ بنے، اس لئے کہ انگریز سمجھتے تھے کہ یہ اسلامی جہاد تھا، پھانسی کا سلسلہ شروع ہوا تو شاہراہوں اور سڑکوں پر تختے لگائے گئے اور علماء اور ذی اثر حضرات کو پھانسیاں دی جانے لگیں۔