حکایات خلیل حصہ اول - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
شخصیت آپ کے لئے محسن کا درجہ رکھتی تھی۔ مولانا کے انتقال کے بعد ارباب مدرسہ نے تعزیتی تجویز پاس کرکے آپ کے بلند پایہ صاحبزادے حضرت مولانا محمود حسن صدرمدرس دارالعلوم دیوبند کو ان کی جگہ مدرسہ مظاہر علوم کا سرپرست بنایا جس کو مولانا نے بخوشی منظور فرمایا، مولانا کی سرپرستی سے حضرت مولانا کو بڑی قوت حاصل ہوئی اور بڑا اطمینان اور سکون نصیب ہوا اس لئے کہ دونوں ایک ہی شیخ کے مسترشد اور اجازت یافتہ اور ایک دوسرے سے قلبی تعلق رکھنے والے تھے، مولانا محمود حسن صاحب کے سرپرست ہونے سے گویا حضرت مولانا سرپرست ہوگئے، مولانا ذوالفقار علی صاحب کی سرپرستی کے زمانے میں ان کی بزرگی اور بڑائی کی وجہ سے بقیہ سرپرست اور ارکان ان کا ادب واحترام کرنے پر مجبور تھے لیکن مولانا محمود حسن صاحب کے سرپرست ہونے کے بعد سرپرستوں کی یہ جماعت تقریبا ہم عمر اور ہم عصر ہوگئی اور حضرت مولانا کو بھی ان بزرگوں سے برابری کا تعلق تھا اور گویا کہ سب ایک دوسرے کے بے تکلف دوست اور ساتھی تھے اس لئے فطری طورپر حضرت مولانا کو آزادانہ کام کرنے اور مدرسہ کو ترقی دینے کے اور زیادہ مواقع حاصل ہوئے۔سب سے بڑا حادثہ : ۱۳۲۳ھ کاسال سارے مسلمانوں کے لئے عموما اور خصوصا دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور کے لئے گہرے رنج وغم کا سال تھا کہ اسی سال نو جمادی الثانی کو حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کا وصال ہوا، آپ کے وصال سے سارے اہل تعلق پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑاخصوصا مولانا کو ایسا شدید دھکا پہنچا کہ اپنے قابو میں نہ رہے، آپ کو حضرت سے جو گہرا تعلق تھا وہ ہی جانتاہے جس نے آپ کے نام حضرت گنگوہی کے مکاتیب پڑھے ہیں، آپ نے جب سے حضرت کے ہاتھ میں ہاتھ دیا عشق ومحبت میں ایسے ڈوبے جس کی مثال ہمعصروں میں نہیں ملتی، چھوٹی سی چھوٹی بات میں حضرت کے حکم کے طالب ہوتے اور قدم قدم پر ان کے نقش قدم پر چلتے، حضرت کا بھی حال تھا کہ باپ سے زیادہ شفیق اور ماں سے زیادہ محب ومشفق آپ کے دل میں حضرت گنگوہی کی وہ محبت پیدا ہوگئی تھی، جس کا مقابلہ دنیا کے مرغوب سے مرغوب چیز بلکہ ماں باپ کی محبت کے ساتھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔(تذکرۃ الخلیل:۶۰) سپردم بتو مایہ خویش را تو دانی حساب کم وبیش را اس لئے حضرت مولانا کو حضرت کے وصال سے جو رنج پہنچا اس کی تصویر کشی ہو نہیں سکتی، حضرت کے وصال کے وقت آپ گنگوہ میں ہی تھے، مولانا عاشق الٰہی میرٹھی جو اس وقت موجود تھے وہ اس موقع پر حضرت مولانا کے رنج وغم اورصبر ورضا کی تصویر اس طرح کھینچتے ہیں: ’’حضرت امام ربانی کے وصال پر بندہ بھی حضرت کے پاس گنگوہ حاضر تھا ہر چند کہ اس سانحہ عظیمہ پر آپ صبر ورضا کی مجسم تصویر تھے